شوہر نے بیوی کو 6 ماہ زنجیروں سے باندھ رکھا ۔

شوہر نے بیوی کو 6 ماہ زنجیروں سے باندھ رکھا ۔
قارئیں ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ صرف مشینی معلومات کا زمانہ ہے ،مشینوں سے معلو مات ہوجاتی ہیں ،لیکن انسان کے اخلاق وعادات ،اطوار سلوک جہالت سے بھرے پڑے ہیں۔وہ آج بھی جاہلی دور سے ہی گزر رہا ہے ۔ترقی صرف لو ہے میں ، برقی میں ،مادیت میں ہوئی ہے ۔لیکن انسان آج بھی پتھر کے دور میں ہی کھڑا لگتا ہے ۔
آج صبح اخبار کے مطالعہ کے دوران ایک ایسی سرخی پر نظر رک گئی جس میں کہا گیا کہ زنجیروں میں بندھی ہوئی خاتون کو خواتین کمیشن نے بچا لیا ۔ ہندوستا ن کے صدر مقام دہلی کے ترلوک پوری علاقے میں ایک شوہر نے اپنی 32 سالہ بیوی کو جو کہ تین بچوں کی ماں ہے پچھلے 6 ماہ سے زنجیروں مین باندھ ر کھا ہے ۔اس پر بے تہاشہ ظلم کیا گیا ،پیروں میں زنجیر باندھ کر گھر کے ایک حصہ میں بٹھا دیا گیا۔
اب آپ غور کریں کہ ایک انسان کس حد تک گر سکتا ہے ،اخلاقی پامالی کی حد پر غور کریں ۔کیسے لوگ مشینوں کی طرح زندگی بسر کر ہے ہیں۔جن میں نہ احساس ہے ،نہ درد ہے ،نہ سمجھ بوجھ ہے ،نہ صحیح غلط کی تمیز ہے ۔بس جانوروں کی کھارہے ہیں مشینوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔
وہ عورت جس کی عمر صرف 32 سال ہو، جس کے تین ننھے منھے بچے ہوں،زنجیروں سے باندھ دی گئی ہو، رات دن اسی کھلے مقام پر رہنا پڑھ رہا ہو،نہ گرمی میں فیان ہو،نہ سردی میں رضائی ہو ،دن میں د و ،چار روٹی کے ٹکڑے سامنے ڈال دئے جائیں،اس کی نظروں کے سامنے بچوں کو مارا جارہا ہو ،پیٹا جارہا ہو،اب اس کی ذہنی تکلیف ،دلی کوفت کا کیا حال ہوگا ؟آپ تصور نہیں کر سکتے ۔
چینا کے بعد آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک جس میں 138 کروڑ لوگ رہتے ہیں اس مہان ملک کے مہان صدر مقام میں رہنے والے لوگوں کا یہ حال ہے تو اب بتائیں کیا تعلیم کا کوئی مثبت اثر ہورہا ہے؟کیا درندگی میں کمی آئی ہے؟کیا ایک انسان دوسرے انسان کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے؟کیا ایک دل دوسرے دل کے بارے میں سنجیدہ ہے؟نہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ سارا سماج ایسا ہی ہے ،نہیں،میں نے چند دن پہلے اس عورت کی خبر بھی سنائی تھی جس نے یہ کہا تھا میرا شوہر مجھ سے حد سے زیادہ چاہتا ہے ،میری ہر بات مانتا ہے ،ہر کام میں میرا ساتھ دیتا ہے ،وہ ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے ،وہ مجھ سے کبھی نہیں لڑتا ،مجھے ایسا شوہر نہیں چاہئے ،مجھے میرے ساتھ لڑنے والا شوہر چاہئے۔ہاہاہاہاہاہا۔ایسے پیارے لوگ بھی ہیں۔لیکن اسی ملک میں ،ایسے درندے بھی ہیں جو انسان کو انسان نہیں سمجھتے بلکہ جانور سمجھ کر زنجیر سے باندھ دیتے ہیں۔ایسے مجرموں کو سخت سزا دینا چاہئے ،اور ان کی بہتر کونسلنگ بھی کرنا چاہئے ۔اس کی ذہنی تربیت بھی کرنا چاہئے ،اس کے دل میں انسانوں کے درد کو بھی پیدا کرنا ہوگا ۔آج ہر غلطی کرنے والے کو کڑی سزا دینے کی بات تو کی جاتی ہے لیکن ان کے تربیت کی ،ان کو انسان بنانے کی ،کونسلنگ کی ، بات نہیں کی جاتی ہے ۔آج ہمارے جیل خانے ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں،وہ بس قید خانوں میں دن گزار رہے ہیں ،جب سزا کے دن ختم ہوتے ہیں باہر آتے ہیں پھر اسی روش پر چل پڑتے ہیں۔اس کے بجائے قید خانوں میں ان کی کونسلنگ کی جائے ،ان کی تربیت کی جائے ،ایک بہتر انسان بننے میں ان کی مدد کی جائے ،تو یقینا قید خانوں کا فائدہ ہوسکتا ہے ۔ورنہ قید خانے صرف حکومت پر ایک بوجھ بن کر رہ گئے ہیں۔انسان کی عزت ونفس کو تار تار کرنے کی جگہ بن کر رہ جاتے ہیں۔
BarakAllaahu feek, maa shaa Allaah
barka Allahu feekum Habeebi