ہم نے تم کو مسلمان سمجھا تھا
23 مارچ کو ایک نوجوان دوائی لینے باہر نکلتا ہے ،لاک ڈوان کا پریڈ تھا باہر نکلنا منع تھا ،لیکن لاک ڈاون کے دوران بھی میڈیکل کے لئے نکلنے کی گنجائش ہے ،وہ نوجوان اپنی مجبوری میں دوائی لینے باہر نکلتا ہے ،نوجوان پر کشش داڑھی والا ہے ،دیکھنے میں مسلمان لگتا ہے،پولس نے پوچھا باہر کیوں نکلے ہو اسنے کہا دوائی لینی ہے،پولس نے نہ مزید انکوائری کی نہ ہی اس کی مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کی ،نہ آو دیکھا نہ تاو دیکھا حکومتی ڈنڈے سے مسلسل پیٹنا شروع کیا ،نوجوان بار بار پوچھتا رہا مجھے کیوں مارا جارہا ہے ،پولس نے ڈنڈا برسانے کے علاو ہ کوئی جواب نہیں دیا ۔وہ نوجوا ن پڑھا لکھا تھا ،اس نے پولس میں شکایت درج کروائی ،پولس کو شکایت درج کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اس کا نام دیپک بندیلے ہے ،ہندو ہے ۔پولس نے اس کو شکایت واپس لینے کے لئے بار بار درخواست کی لیکن وہ اڑا رہا ،یہاں تک کہ پولس اس کے گھر کو پہنچ کر درخواست کرتی ہے کہ شکایت واپس لے۔دیپک نے وجہ پوچھی اس کو کیئں مارا گیا ،تو پولس نے انتہائی شرمناک جواب دیتے ہوئے کہا پولس نے سمجھا تھا کہ وہ مسلمان ہے اس لئے مارا ۔پھر اپنی شرمناک حرکت کا پردہ فاش کرتے ہوئے کود ہی کہا کہ جب کبھی ہندو مسلم فساد ہوتے ہیں تو پولس ہندو بن کر کام کرتی ہے ۔ ہم نے آپ کو ہندو سمجھا تھا معاف کر دیجئے ۔
پولس کی ایسی حرکتیں آزادی کے بعد سے ہی چلتی آرہی ہیں ،جب بھی فسادات ہوتے ہیں مسلمانوں کو ہی ٹارگیٹ بنایا جاتا ہے ،مسلمانوں کی قتل وغارتگری کے بعد پولس پہنچ کر الٹا مسلم نوجوانوں کو ہی گرفتار کرتی ہے ،جھوٹے کیسوں مین پھنسا کر سالہا سال قید وبند میں رکھ کر آخر کار بے گناہی ثابت ہوتی ہے ،رہا کیا جاتا ہے ۔جو مدت اس نے بے گناہی کی کے باوجود جیل مین گزاری اتنی لمبی ہوتی ہے کہ اس کا سارا کیریئر تباہ ہوجاتا ہے ۔وہ پڑھا لکھا ہونے کے باوجود کچھ نہیں کر سکتا ،نہ نوکری کر سکتا ہے ،نہ کاروبار کر سکتا ہے بس سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
سمجھدار لوگوں کے لئے ،امن پسند لوگوں کے لئے مدھیہ پریدیش کا یہ واقعہ آکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے ۔اگر حکومتی کارندوں کی یہ ذہنیت ہوگی کہ مسلم ہے بس مارو جو ہوگا وہ بعد مین دیکھا جائیگا ،یہ وطن کے لئے ،وطن کی ترقی کے لئے بہت نقصاندہ ہے ۔اس ملک کی ترقی میں جتنا غیر مسلموں کا حصہ ہے اسی مقدر مسلمانوں کا بھی حصہ ہے ۔ہر مشکل گھڑی میں مسلمان آگے بڑھ کر ابنائے وطن کی مدد کرتے ہیں،چاہئے طوفان کا معاملہ ہو ، فسادات کا معاملہ ہو،قحت کا معاملہ ہو ،کورونا جیسی وبا میں پریشان پیدل چلنے والے مزدوروں کا معاملہ ہو،ہر میدان مین مسلمانوں نے کروڈوں روپئے کی مدد کی ،راشن تقسیم کیا ۔مذہب کو نہیں دیکھا ،ہر ایک کی برابر مدد کی ۔بلکہ مسلمان غیر مسلموں کی زیادہ مدد کرتے ہیں ۔
جس لاک ڈاون میں مدھیہ پردیش کے وکیل دیپک کو مسلمان سمجھ کر پیٹا گیا ،اسی لاک ڈاون میں سڑکوں پر چلنے والے لاکھوں مزدوروں کی کھانے پینے کا انتظام ،لاریوں میں لے جانے کا انتظام ،مسلمانوں نے کیا ۔ آج پورے ملک میں کوئی ایسا شہر نہیں جہاں مسلمانوں نے برھ چڑھ کر پریشان حال لوگوں کی مدد نہ کئے ہوں۔اس مدد کے دوران انہوں نے مذہب کا پاس ولحاظ نہیں رکھا بلکہ سب کی برابر مدد کی ۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ سارا پولس ڈپارٹ یا سرکاری کارندے ایسے ہی ظالم ہوتے ہیں۔اس طرح کی ذہنیت والے صرف مٹھی بھر ہوتے ہیں ان مٹھی بھر شرپسندوں کی وجہ سے سارا ڈپارٹ منٹ بدنام ہوجاتا ہے ۔اس طرح کی شر انگیزی پر نیشنل میڈیا کبھی زبان نہیں کھولتا ۔بلکہ اس طرح کی شرانگیزی کی طرف دھیان دینا بھی گوارا نہیں کرتا ۔اگر اس طرح کا معاملہ کسی مسلمان کی طرف سے ہوتا تو پورا میڈیا مسئلہ سرپر اٹھا کر ایک مہنہ تک ڈبیٹ کرتا رہتا ہے ۔
ہم دیپک بندیلے کو سلوٹ کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اس ظلم کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکا ،بلکہ آواز اٹھائی ،سپریم کورٹ تک پہنچ گئے ۔دیپک نے مختلف نیوز چینلوں کو انٹرویو دیتے ہوئے بڑی پتہ کی باتیں بتائی ،یہ حملہ مجھ پر نہیں بلکہ پورے سماج پر ہے ،داڑھی رکھنا کیا جرم ہے؟اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ملک کو بچانے کی ضرورت ہے ۔دستور کو بچانے کی ضرورت ہے ۔
پولس ڈپارٹ منٹ کا ایک بڑا طبقہ اچھے خیال کا بھی ہے ،انصاف کیا ہے سمجھتا بھی ہے ،غلط اور صحیح کی تمیز بھی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسے شرانگیز واقعات اور حادثات کی کھل کر مخالفت نہیں کرتا ۔ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا ،خاموش رہ کر آنکھ بند کر لیتا ہے جس کی وجہ سے ایسے شر پسندوں کی ہمت بندھی رہتی ہے ۔
آج ضرورت ہے پورے ملکی طور پر اخلاقی تربیت کی ،اپنے فرائض کو انصاف کے انجام دینے کی ۔مذہبی نفرت کو اکھاڑ کر پھینکنے کی ،تعصب کا عینک نکال کر پھینکنے کی ۔ بھید بھاو کی سیاست کو دیوار پر مارنے کی ۔ پورا ملک ایک گھر کی طرح ہے ،اس گھر کو جو بھی ترقی پر لانا چاہتا ہے وہ فسادات سے پاک رکھنا چاہتا ہے ،وہ دنگوں سے پاک رکھنا چاہتا ہے ،کیوں کہ جس ملک میں فسادات کو بھڑکایا جاتا ہو ،ایک خاص طبقہ کے ساتھ ظلم کا ،ناانصافی کا معاملہ کیا جاتا ہو تو اس کی ترقی کیوں کہ ممکن ہوسکتی ہے؟ جو لوگوں کو توڑنے کی بات کرتے ہین حقیقت میں وہی ملک غدار ہوتے ہین۔جو ملک کو جوڑنے کی بات کرتے ہیں حقیقت مین وہی ملک کے وفادار ہوتے ہیں۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 0 / 5. Vote count: 0

No votes so far! Be the first to rate this post.

6 thoughts on “ہم نے تم کو مسلمان سمجھا تھا

  1. السلام عليكم ورحمة الله وبركاته بڑی افسوس کی بات ہے کہ جو مسلمان اپنے ملک کی ترقی کے لئے زندگی میں علم حاصل کرنے کے بعد بہت سارے آزمائش کا سامنا کرتے ہیں
    لیکن اس ملک کی حکومت تو یہیلوگوں کے لئے ظالم بنی ہوئی ہے
    اگر ایسا چلتا رہا تو پھر علم حاصل کرنے کا فائدہ کیا

  2. اللہ کرے زور قلم اور زیادہ، بارك الله فيكم يا شيخنا الفاضل ونفع بكم الإسلام والمسلمين

Leave a Reply