آپ اگر غور کر کے دیکھیں  تو پتہ چلتا ہے کہ سب لوگ ہم بچوں کو  ہی سناتے رہتے  ہیں  ساری نصیحتیں ہم کو ہی کی جاتی ہیں  ،لیکن  ہم کیا چاہتے ہیں ہماری سننے والا کوئی نہیں ہے ،چلو آج ہم اپنی  بھی  سناتے ہیں ،تاکہ ہمارے ماں باپ پہلے ہم کو سمجھیں ،کہ ہم  کیا چاہتے ہیں۔

آج ہمارے ماں باپ کو چاہئے  کہ  وہ اپنے کاروبار ،اپنی ڈیوٹی ،اپنے کام ،اپنے دوستوں کو ،اپنے  میٹنگ سے بڑھ کر  ہم پر توجہ دیں،کیوں کہ ہم  بچے ان سب سے  بڑی نعمت ہیں،اگر آج یہ ہماری  دینی تربیت کرتے ہیں ،بااخلاق بناتے ہیں   ،تو کل ہم دعا دے سکتے ہیں  رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا ،ائے ہمارے رب ہمارے ماں باپ  بھی ویسے ہی رحم فرما جیسے انہوں نے بچپن میں  ہم رحم کیا تھا۔اگر ہمارے ماں باپ گزر جاتے ہیں  تو ہم ماں باپ کے لئے صدقہ جاریہ بن جاتے ہیں،کل قیامت کے دن ہماری دعائیں ان کے حق میں ثواب کے انبار بن   کر ملیں گی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ماں باپ  ہمارے لئے عمدہ  کھانا بناتے ہیں،عمدہ کپڑے  فراہم کرتے ہیں،عمدہ گھر بنا کر دیتے ہیں،عمدہ اسکول مین اڈمیشن دلاتے ہیں ،بڑی بڑی فیس ادا کرتے ہیں،اچھی گاڑی میں  اسکول بھجتے ہیں،اسکول   کو جاتے ہوئے ہر دن  ٹفن کے علاوہ بھی چیزیں دلاتے ہیں۔اگر ہم کسی سبجیکٹ میں کمزور ہوں اچھے ٹیوٹر   کو لگا کر تعلیم دیتے ہیں،ان سب کے علاوہ ہماری دینی  تربیت  بہت ضروری ہے۔

جب   ہم  کوئی  اچھا کام کریں  تو  ہمیں  شاباشی ضرور دیں۔اس سے ہماری ہمت افزائی ہوتی ہے،ہمارے گھر میں چھوٹے بھائی  ہیں تو ان کو ابھی سے مسجد لے جائیں  تاکہ ان کو عادت ہوجائے ۔

ہمارے ماں باپ اکثر وبیشتر  ہم سے وعدے کرتے رہتے ہیں لیکن پورا نہیں کرتے ،ایسے نہ ہو،ہماری صحت کے لئے دعائیں بھی کرتے رہیں،کبھی کبھی ہمیں کھانے کے لئے کچھ زیادہ  دلادیں اور ہم سے کہیں کہ بیٹا اپنے کلاس  میں  کسی کے پاس کھانے کی چیز نہ ہوتو اس کو بھی دے دیں۔

کبھی کبھی پنسل ،ربر،اسکیل ایک بڑھ کر دلائیں اور  کسی غریب بچے کی مدد کرنے کے لئے کہیں،ہم جمعہ  میں آتے ہیں تو ہمارے ہاتھوں سے مسجد کے باکس میں کچھ پیسے ڈالنے کی تعلیم دیں،اگر کسی مسجد یا مدرسہ کو تعاون دیتے ہیں تو ہمارے ہاتھوں سے دینے لگائیں تاکہ ہم دینے والے بنیں۔

ہمارے ماںباپ  چاہتے ہیں کہ ہم جلدی سوجائیں لیکن خود رات دیر گئے  تک جاگتے ہیں، ایسے ہوہی نہیں سکتا کہ گھر کے سب افراد جاگیں اور بچے سوجائیں ،اس لئے بڑوں کو بھی جلدی سوجانا ہوگا۔

ہاں ہم بچے ہیں ہم سے بہت ساری غلطیاں ہوتی ہیں تو ایسے موقعہ پر ہم سے چلا کر بات نہ کریں بلکہ  نرمی سے سمجھائیں ۔اور اگر سزا دینا ہوتو  ہم کو اس کی وجہ ضرور بتائیں ۔اور ہاں ہماری موجودہ غلطی کو رکھتے ہوئے پچھلی ساری غلطیاں  دہرانا ٹھیک نہیں ہے۔

کبھی کبھی ہماری سہلیوں کو بھی گھر بلائیں  ان سے باتیں کریں ان کو کچھ نہ کچھ کھلائیں  یہ ہمیں بہت اچھا لگتا ہے۔

ہمارے ماں باپ کو چاہئے کہ ہر دن کوئی ایک وقت کا کھانا ہمارے ساتھ ضرور کھائیں ۔ہم کو کھانے پینے کے آداب سکھائیں۔ہمیں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کراتے رہیں  اس سے صلہ رحمی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

ہمارے ماں باپ   ہمارے لئے سب کچھ ہوتے ہیں اگر وہ آپس میں لڑتے ہیں     تو ہم کو بہت ڈر لگتا ہے جب وہ لڑتے ہیں تو اس دن ہمیں نہ کھانا اچھا لگتا ہے  نہ پڑھنے میں دل لگتا ہے،نہ اسکول میں دل لگتا ہے،ہمارے دلوں کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے،اسکول کا ہوم ورک بھی ٹھیک سے کر نہیں پاتے ،اسکول میں مسکرانا چاہتے ہیں،لیکن فورا  گھر کا منظر یاد آتا ہے  ساری مسکراہٹ غائب ہوجاتی ہے۔اگر امتحانات کا زمانہ ہوتو  ہمیں  اور زیادہ تکلیف ہوتی ہے،گھر   میں ماں باپ   کا اختلاف  ہماری یاد داشت کو کمزور بنادیتا ہے۔

ہمارے ماں باپ   کی لرائی اگر طلاق تک پہچ جائے تو پھر  ہماری زندگی کی امیدیں ہی ختم ہوجاتی ہیں،سب  بچے اسکول کو ہنستے ہوئے جاتے ہیں لیکن ہم کو  اپنی نم آنکھوں کے ساتھ جانا پڑتا ہے،ہم بچوں کا  دل اکثر ماوں  کے ساتھ زیادہ لگا ہوتا ہے  طلاق کے بعد  ہم ماں کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں،لیکن  ہماری پڑھائی ادھوری ہوجاتی ہے،ہماری  اسکول کی فیس  مشکل ہوجاتی ہے۔نتیجہ میں ہماری پڑھائی رک سکتی ہے۔

ہمارے ماں باپ کو چاہئے کہ ہماری تعریف زرا بلند آواز سے کریں ،کیون کہ ان کی تعریف سے ہماری ہمت بڑھ جاتی ہے،ہمارے پاس بیٹھیں ،مسکرائیں،کھیلیں ۔

جن باتوں سے ہمیں روکتے ہیں خود بھی ان باتوں سے رک جائیں۔ہم کو دعائیں  یاد دلائیں،بار بار  دعا  پڑھنے کی ترغیب دلائیں ۔ہم کچھ کہنا چاہیں تو غور سے سنیں ۔

اگر ہم اسکول سے لیٹ آئیں تو وجہ پوچھیں ،کسی بھی چیز کی تحقیق  کئے بغیر الزام نہ لگائیں۔

ہم کو بتا یا جائے کہ مہمانوں کے ساتھ کیسے سلوک کریں ،کیسے بات کریں ،کیسے استقبال کریں ۔اگر ہمارے ہاتھوں سے  غلطی سے دودھ گر جائے ،پلیٹ گر جائے ،چائے کی پیالی ٹوٹ جائے تو فورا بر ا بھلا کہنے کے بجائے  صبر سے کام لیں،

ہماری خاطر  حرام کمائی  نہ لائیں ،ہمیں  روکھا سوکھا پسند  ہے لیکن حرام کمائی پسند نہیں ہے۔

ہمارے سامنے ہمارے اسکول ٹیچرس کو برا بھلا نہ کہیں،اگر  ہمارے ٹیچرس    کی ہم کوئی شکایت کریں تو  پہلے تحقیق کر لیں ،پھر ٹھنڈے دل سے اسکول کے مینیجمنٹ سے بات کریں۔

ا  سکول جاتے وقت اور سکول سے آ تے وقت اگر آپ کو سلام کرنا بھول جائیں تو یاد کروا دیں۔

سکول میں ہمارا رزلٹ   اگرتوقع سے کم رہے تو پریشان ہونے  اور  ہمیں ڈانٹنے کی بجائے ہماری  حوصلہ افزائی اور مدد جاری رکھیں۔

اپنے فرائض  انتہائی دیانت داری اور محبت سے ادا کریں اس میں ماں باپ  کے ساتھ ساتھ ہماری  بھی عزت ہے۔

زندگی کی دوڑ میں ہمیں  مقابلے پر اترنا سکھائیں اور یہ بھی بتائیں کہ دور حاضر میں اس دوڑ کو جیتنے  کیلئے کس قدر محنت کی ضرورت ہے ؟

ہمیں  مار پیٹ کی بجائے اپنے اخلاقی رعب سے کنٹرول کریں۔کام کے دباؤ میں بھی اپنے آپ کو کنٹرول،میں رکھیں کیونکہ سب سے زیادہ تنقید اور ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا ہمیں  اسی وقت کرنا پڑتا ہے۔

.ہمیں  ایسے کھلونے لا کر دیں جو ہماری  تعلیم و تربیت میں مدد گار ثابت ہوں۔ہمارے  مستقبل  کے تعلیمی اخراجات کے لئے ابھی سے بچت شروع کر دیں۔

ہمیں  رشوت لے کر کہنا ماننے کی عادت نہ ڈالیں بلکہ غیر مشروط اطاعت کی تربیت دیں۔ہمارے ماں باپ   ہمارے لئے   مثالی بن کر رہنمائی کریں نہ کہ صرف  زبانی ۔

ہمیں  دادا،دادی، نانا، نانی،اور گھر کے افراد کی ہر قیمت پر عزت اور خدمت کرنے کی تربیت دیں۔ٹانگیں توڑنے اور جان سے ما ر نے جیسی غیر حقیقی دھمکیاں دے دے  کر  لا پرواہ نہ بنائیں۔

ہمارے ماں باپ    اپنی پسند و نا پسند کو  ہم  پر اس حد تک نہ ٹھونسیں کہ ہمارے  اعتماد کی عمارت ہی  ٹوٹ جائے۔ہمارے ماں باپ  خود بھی ان نصیحتوں  کے ذریعے کامیاب والدین بن سکتے ہیں جو ہم کو  کرتے ہیں۔ذرا اندازہ لگائیں کہ اگر ایک اچھی بات ہمیں  روزانہ بتائیں  تو سال میں کتنی باتیں ہو جائیں گی ؟

اب ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ ہمارے جذبات کو سمجھیں گے اور اسی انداز سے ہماری تربیت کریں گے ان شاءاللہ

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 5 / 5. Vote count: 1

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply