کیا تعلیم کا مقصد صرف لکھنا پڑھنا ہے؟

قارئین   ہمارے اسکولس میں طلبہ کی بھرمار ہے،اسکولس کی بلڈنگس ناکافی ہورہی ہیں،جگہ نا کافی ہورہی ہے، کیوں کہ آج ہر آدمی اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتا ہے۔ کسی کھیت میں کام کرنے  والے سے  پوچھیں کہ تم اپنے بچوں کو کیا بناوگے تو کہیگا میں اپنے بچوں کو پڑھا کر لکھا کر بڑا  آدمی بناوں گا ،کسی ترکاری بیچنے والی عورت سے پوچھیں کہ وہ اپنے بچوں کو کیا بنائیگی وہ بھی کہیگی کہ تعلیم دوں گی ۔کسی آٹو  رکشا  یا ٹیکسی والے سے پوچھیں وہ اپنے  بچوں کو کیا بننا چاہتا ہے وہ بھی کہیگا کہ تعلیم   دینا چاہتا ہے ۔الغرض  آج کا دور تعلیم کا دور ہے ۔

جب تعلیم کی بات آتی ہے  تو انگلش  کی بات آتی ہے ،اور انگلش میں  بھی اسپوکن انگلش کی بات آتی ہے،اگر یہ دو کر لیں تو ماں باپ  ،اسکولس ،ٹیچرس ،سوسائیٹی مطمئن ہوجاتی ہے ۔ہاں یہ دونوں چیزیں  بہت اہم ہیں ان کا انکار کوئی بھی نہہں کر سکتا ہے،یہ دونوں چیزیں دور  حاضر میں ترقی کے لئے لازمی ہیں ۔لیکن خرابی   یہاں ہے  کہ پوری قوت وطاقت     آخر دم تک ان پر ہی لگائی جاتی ہے جبکہ  اس تعلیم  کے حقیقی معنوں میں  فائدہ مند ہونے کے لئے  کچھ اور بھی چیزیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔وہ صفات جب تک پیدا نہین ہوں گی    تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔لیکن سوئے اتفاق کہ آج  کے اسکولس ،کالجس  ان صفات کو پیدا کرنے کی کوشش  شعوری طور پر پلاننگ کے ساتھ ،مقصد کے ساتھ  نہیں کی جاتی ہے۔

آج  ہم  کو  اپنے بچوں میں ،طالب علموں میں ،اللہ پر ایمان  ویقین  ،بھروسہ  توکل   پیدا کرنے کی ضرورت ہے،کھانے کے آداب ،لباس کے آداب ،رشتہ داروں کے آداب وحقوق  ،چھوٹے بڑوں کو سلام کرنا ،دوسروں کے ساتھ احسان  کا جذبہ ،پاکی صفائی ،سب کا  احترام   ،اللہ کی دی  ہوئی نعمتوں پر شکر گزاری کا جذبہ  پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

اللہ کے بتائے ہوئے قانون ،نبی کے بتائے ہوئے احکام ،کو جاننا ان پر عمل کی کوشش کرنا  ،صدقہ کرنا ،اللہ کی  دی ہوئی چیزوں کی قدر کرنا ،پروسیوں  کو تکلیف نہ دینا ،راستہ چلتے ہوئے  دوسروں کو تکلیف نہ دینا ،راستے کے حقوق ادا کرنا ،مہمان نوازی کرنا ،دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنا ،بڑوں کی اطاعت کرنا ،ہمیشہ اللہ کا نام  لیکر  کام شروع کرنا ،دوسروں کی کوئی چیز لینے سے پہلے اجازت لینا ، امانتداری کا خیال رکھنا ،اپنے وقت کی قدر کرنا ،وعدے کی پابندی کرنا ،سچ بولنا ،جھوٹ سے پرہیز کرنا ،دھوکا  نہ دینا ،خود غرضی سے بچنا ،تکبر سے بچنا ،سستی اور کاہلی سے بچنا ،چغل خوری سے بچنا  حسد سے بچنا ۔یہ سارے زندگی میں ترقی کرنے  سنہرے اصول ہیں ۔ان سنہرے اصولوں پر عمل کرنے والا ہی  اپنی تعلیم   کے بل بوتے پر دنیا کا بڑے سے بڑا آدمی بن سکتا ہے ۔تعلیم  میں ،اپنے فن میں ، اپنے میدان میں کتنا ہی   ماہر  ہو جب تک  اخلاقیات  کے ان  بنیادی اصولوں   کو اپنی زندگی میں نہین لائیگا ،اس کی کامیابی پکی نہیں ہے ۔نہ ہی ان اصولوں کو چھوڑ کر  کوئی کارنامہ انجام دے سکتا ہے۔

آپ دنیا کے کسی بھی کامیاب آدمی کو دیکھیں اس کی زندگی کا مطالعہ کریں ،چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ،دنیا ک کسی بھی ملک ہو،کسی بھی دور کا ہو اس میں یہ صفات ضرور پائیں گے ۔ان صفات کو پیدا کئے بغیر اپنی تعلیم  کے  بل بوتے پر کوئی کارنامہ انجام دے نہیں دے سکتے۔اگر آپ کسی اسکول کالج کے ذمہ دار ہیں یا بچوں کے   باپ ہیں یا ماں ہیں  تو ان  صفات پیدا کرنے کے لئے شعوری کوشش کریں ۔ہمارا تعلیمی سسٹم  ایسا ہے کہ  عصری تعلیم گاہوں  میں فنی مہارتیں   پیدا کرنے  میں  ساری عمر لگائی جاتی ہے لیکن اخلاقی  قدروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے  زندگی میں کوئی یاد گار کارنامہ   انجا م دے نہیں  پاتے ۔دوسری طرف دینی  تعلیم گاہوں میں یہ صفات کوٹ کوٹ کر بھر دیتے ہیں ۔یہ ساری صفات واخلاق  پوری طرح پیدا کئے جاتے ہیں لیکن فنی مہارتوں پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی،جس کی وجہ دینی اداروں  میں پڑھنے والے طلبہ  بڑے بڑے کارنامے انجام دینے سے رہ جاتے ہیں۔الغرض  دونوں میں  توازن بیالنس  پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔اگر یہ طالب  علم گریجویشن کی  سرٹیفکیٹ  حاصل کرتا ہے اگر اس مین صفات پیدا نہیں کئے گئے تو تعلیم کا  مقصد پورا  نہیں  ہوا۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 5 / 5. Vote count: 1

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply