کسی بھی نئے مقام پر قیام کریں تو اپنی حفاظت کے لئے کیا کریں ؟

کسی بھی نئے مقام پر قیام کریں تو اپنی حفاظت کے لئے کیا کریں ؟
عن النبيِّ -عليه الصّلاة والسّلام- فيما وردَ عن خولة بنت حكيم -رضي الله عنهما- قالتْ: سمعتُ رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- يقول: “منْ نزلَ منزلاً ثمَّ قالَ: أعوذُ بكلماتِ الله التَّامات من شرِّ ما خلقَ، لم يضرهُ شيءٌ حتَّى يرتحلَ من منزلِهِ ذلكَ” مسلم
خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنحا فرماتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ۔جو کوئی آدمی کسی نئے مقام پر پڑاو ڈالتا ہے اور پھر یہ دعا پڑھتا ہے ، أعوذُ بكلماتِ الله التَّامات من شرِّ ما خلقَ
تو اس مقام پر جب تک رہے اس کو کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے ۔
ناظرین دیکھا آپ نے کہ نبی نے کتنی ہم دعا سکھائی ہے ۔ہم جس دور سے گزرہے ہیں اس میں ہم لوگ کافی مکانات بدلتے رہتے ہیں،جب بھی ہم کسی نئے مقام پر قیام کرنا چاہیں تو اس دعا کا ضرور اہتمام کریں ۔ہم کبھی کرائے کے مکان میں جاتے ہیں ،کبھی سفر میں لاڈجlodge میں رہتے ہیں ،کبھی کسی کے مہمان بن کر قیام کرتے ہیں ۔ان تمام حالات میں اس دعا کا اہتمام کرنا چاہئے ۔
اس دعا سے ہر اس نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچ جاتے ہیں جو چاہے انسانوں میں سے ہوں ،یا جانوروں میں سے ہوں۔یا بیماریوں میں سے کیوں نہ ہوں۔ ہر اس کے شر سے جس کو اللہ نے پیدا کیا ہے ۔دور حاضر میں کاروباری سفر بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں ،تعلیمی سفر بھی ہوتے ہیں،مختلف پروگرامس کے سفر ہوتےہیں ،الغرض آج آدمی نئے مقامات پر منتقل ہوتا رہتا ہے ،اس کو الگ الگ شہروں میں ،الگ الگ مقامات پر رہنا پڑتا ہے ۔
اس دور میں نئے مقامات پر چوروں کا ڈر ہے ،قاتلوں کا ڈر ہے ،فسادات کا ڈر ہے ،دشمنوں کا ڈر ہے ،مختلف بیماریوں کا ڈر ہے،نقصان کا ڈر ہے ،ہر بلا سے بچنے کی دعا ہے۔جس میں بندہ اللہ کے کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتا ہے۔
جب ایک بندہ سچے دل سے پناہ مانگتا ہے تو اللہ ضرور پناہ دیتا ہے ،ضرور اس کو ہر شر سے محفوظ رکھتا ہے۔بس بندہ دل دعا کرنا سیکھے ۔ناظرین ہم کو چاہئے کہ اس دعا کا اہتمام کریں ۔خود بھی یاد کریں ،گھر والوں کو بھی یاد دلائیں ۔اپنے بچوں کو بھی یاد دلائیں ۔اس لئے کہ دعا ہی مومن کا ہتھیار ہے ۔اس دور میں جتنے حفاظتی طریقے ہوسکتے ہیں سب کو اپنانا ہوگا ۔چاہئے وہ شرعی طریقے ہوں یا دنیوی طریقے ہوں ،ہر چیز کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔حفاظتی طریقے اپنے گھر میں عورتوں کو بھی سکھائیں ،بچوں کو بھی سکھائیں ۔اپنے نوجوانوں کو بھی سکھائیں ۔ اگر ہم دنیوی حفاظتی طریقے استعمال کرتے ہیں تو یہ توکل کے خلاف نہیں ہے ۔کیوں کہ نبی کا حکم ہے پہلے اسباب اختیار کرو اور پھر اللہ پر بھروسہ کرو ۔ایک آدمی اسباب اختیار کئے بغیر صرف اللہ پر بھروسہ کی بات کرتا ہے تو اس نے دین کو نہیں سمجھا ۔وہ توکل کے نام پر خسارہ اٹھانے والا ہے ۔