نئی تعلیمی پالیسی کی خوبیاں ،خامیاں ،اشکالات اور امکانی حل

آزاد ہند میں یہ تیسری تعلیمی پالیسی ترتیب دی جا رہی ہے، اس سے قبل یہاں دو قومی تعلیمی پالیسیاں بالترتیب 1968 ء اور 1986 ء میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے عہد میں بنائی گئی تھیں، تاہم 1986 ء کی پالیسی پر نظرثانی 1992 ء میں کی گئی۔
اس نئی تعلیمی پالیسی میں بہت ساری خوبیاں بھی ہیں خامیاں بھی ہیں ۔اور اشکالات بھی ہیں ۔اس نئی پالیسی کی تشکیل میں مسلم اقلیتوں کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا ہے ۔
ہندوستان کی مسلم اقلیت اس تعلیمی پالیسی کو رکھتے ہوئے کیسے اپنے بچوں کے دین وایمان کی حفاظت کر تے ہوئے جدید تعلیمی نظام سے فائدہ اٹھا سکتی ہے ۔ ایک سنجیدہ غور وفکر کی ضرورت ہے ۔
خوبیاں :
نئی تعلیمی پالیسی نے 5+3+3+4 کے تعلیمی فارمولے پر اسکولی تعلیم کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
بچے کو نرسری سے پانچویں جماعت تک اپنی مادری زبان مین تعلیم کا موقعہ ملےگا ۔
اس میں ایک سے 18 سال کی عمر تک کے بچوں کو لازمی مفت معیاری تعلیم دینے کو کہا گیا ہے۔
اسکول کی تعلیم بارہ سال سے بڑھا کر 15 سال کی گئی ہے ۔
کمپیوٹر اور تکنیک کے زمانہ میں کمپیوٹر کے ذریعہ امتحان اور ہنر پر مبنی نصاب کی سفارش کی گئی ہے۔
طالب علم کو جس سیمسٹر میں لگتا ہے کہ وہ امتحان دینے کے لئے تیار ہے اس وقت اس کا امتحان لینا چاہئے ۔ بعد میں اگر اسے لگتا ہے کہ وہ اور بہتر کر سکتا ہے تو اسے امتحان دینے کا ایک اور موقع دینا چاہئے۔
اساتذہ کو درس و تدریس کے علاوہ دیگر حکومتی و ترقیاتی کاموں کی زحمت نہیں دی جائے گی، ان کی الیکشن کے موقع پر ڈیوٹی یا سرکاری اسکولوں میں دو پہر کے کھانے کے انتظامات کی ذمہ داری بھی نہیں ہو گی۔
موجودہ تمام غیر معیاری بی ایڈ اور ڈی ایڈ کالجز مکمل طور پر ختم کردیے جائیں گے۔
کاروباری تعلیم، زندگی گزارنے کے مختلف مواقع جس میں باغبانی، الیکٹرک ورک، دست کاری اور صنعت وحرفت وغیرہ کو ابتدائی جماعتوں سے سکھانے کے انتظامات جائیں گے۔
دنیا کے اعلیٰ 200 اداروں کے کیمپس انڈیا میں کھولے جانے کی سفارش کی گئی ہے ۔جس سے انٹرنیشنل تعلیمی معیار رائج ہوگا ۔
خامیاں :
قدیم ہندو تھذیب وثقافت کو رواج دینے کے بہانے ایک مخصوص نظریہ کو مسلط کرنے کی کوشش کی جائیگی۔
سنسکریت کو مسلط کرنا مخصوص تھذیب وثقافت کو مسلط کرنا ہے ۔
تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل مجوزہ جدید تعلیمی پالیسی دستاویز میں ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان اور ان کے تعلیمی رویے کے بابت محض ڈیڑھ صفحہ پر مشتمل بے ربط انداز میں چند باتیں درج ہیں۔
آٹھ زبانوں کے لئے ”ای مواد“ تیار کیا جائے گا، مگر اس میں اردو شامل نہیں کی گئی ہے
اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کی بقاء اور فروغ کے سلسلہ میں پالیسی بالکل خاموش ہے۔ ڈرافٹ کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہو تا ہے کہ اب تمام اختیارات، مرکزی حکومت کے ہاتھ میں آجائیں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنی پالیسی کے مطابق آہستہ آہستہ سرکاری اداروں کو کم کردے گی۔
سرسوتی پوجا، یوگا نیز ہندو، مذہبی تعلیمات کو لازمی طور پر شامل رکھنے کی بات بھی شامل ِ دستاویز ہے۔جس سے مسلم اقلیتوں کے بچے دیہی علاقوں میں کثیر تعداد میں حکومتی اسکولوں تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کے دین وایمان کا تحفظ مشکل ہوگا ۔کیوں کہ وہاں عقیدہ کے اصلاح کے لئے علماء نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اشکالات :
ہندوستانی زبان تھذیب وثقافت کو فروغ دینے کی بات کی گئی اس کی شکل کیا ہوگی؟
آئین کی دفعہ 29، 30 اور 31 جس میں اقلیتوں کو اپنی پسند کی تعلیم دینے، تعلیمی ادارے قائم کرنے کا حق دیا گیا ہے ۔ اس پر یہ پالیسی خاموش ہے۔
موجودہ حکومت اس تعلیمی پالیسی کے ذریعہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ ترقی، رواداری، بھائی چارہ، اخوت، انیکتا میں ایکتا یا پھر کسی خاص نکتہ نظر کا تسلط۔
کارکنان تعلیمی اداروں کے درس و تدریس کے نظام پر نظر رکھیں گے۔ لیکن اس کی صراحت نہیں ہے کہ یہ کارکنان کون لوگ ہوں گے؟ ان کے کیا اختیارات ہوں گے؟
خدشہ اس بات کا ہے کہ جتنے ملک میں عطیہ جاتی ادارے ہیں انہیں بھی معیار تعلیم کے لازمی مطلوبات کے مطابق نہ رہنے کا بہانہ بناتے ہوئے اقلیتی تعلیمی اداروں کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔دینی مدارس کا وجود بھی دھیرے دھیرے خطرات کا سامنا کر سکتے ہیں۔
امکانی حل
بچوں کے ایمان وعقیدہ کی حفاظت کے لئے پہلے ہی مساجد میں مکتب کے نظام کو مضبوط کیا جاسکتا ہے ۔
مکتب کا نظام ہمارے بچوں کو دین سے جڑے رہنے میں کافی مددگار ہے اس کے لئے ہر مسجد میں مکتب کو قائم کیا جاسکتا ہے ۔
مکتب کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے مساجد کی متولیوں اور ذمہ داروں کی ذہن سازی کرنی ہوگی ۔
مکتب کو چلانے کے لئے مستقل نصاب کی تیاری بھی کرنی ہوگی ،اور اس کے لئے علماء کی تربیت بھی ضروری ہوگی ۔
مسلم پرائیوٹ اسکولس میں دینیات کو فروغ دیا جائے ۔اس کے لئے علما ء کی خدمات اور ان کو ٹریننگ دی جائے ۔
Khan Academy کے طرز پر بچوں کے لئے دینی نصاب پر مشتمل ایک online academy کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے ۔
علماء نے اپنی ساری خدمات بڑوں کے لئے رکھی ہیں اب انہیں بچوں کی سطح پر نصابی کتابیں تیار کرنا ہوگا۔ارکان اسلام کو بچوں کی سطح پر پیش کرنا ہوگا ۔اس طرح کے بے شمار امکانی حل ہوسکتے ہیں ۔علماء اور دنشوران ملت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔