میڈیا کی اہمیت

دور حاضر میں میڈیا بہت ہی طاقور رول انجام دے رہا ہے ،وہ کالے کو سفید اور سفید کو کالا ،دن کو رات اوررات کو  دن  ،ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو ثابت کر سکتا ہے، موٹے طور پر ہم میڈیا کو دو حصوں مین تقسیم کر سکتے ہیں ،الیکٹرونک   میڈیا اور پرنٹ میڈیا ۔

پرنٹ میڈیا سر فہرست اخبار کا شمار ہوتا ہے  پہلا اخبار  1703 میں برطانیہ میں شائع ہوا  فرانس میں  1777 میں شائع ہوا ،1780 میں ہندوستان میں ،1784 میں امریکہ میں ،1798  مین مصر میں ،1828 میں عرب میں  شائع ہوا ۔

الیکٹرانک میڈیا کو دیکھتے ہیں تو 1897 میں ریڈیو کا آغاز ہوا ،1958 میں سیٹلائٹ قائم ہوا۔

ایک زمانہ تھا جس میں میڈیا  ایمان دار ،انصاف پسند ،غیر جانب دار ،پوزیٹویو تھنکنگ ،برائی کو روکنے کا حقیقی جذبہ رکھتا تھا۔دور حاضر میں میڈیا   کا زندگی کے ہر شعبہ میں استعمال ہورہا ہے،چاہےوہ حکومت   میں  تجارت میں ،بیانک میں ،اسکول میں ،ٹیوشن میں،کاروابار میں الغرض  کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں کہ جس میں  میڈیا کا استعمال نہ کیا جاتا ہو۔میڈیا دو دھاری تلوار ہے،اصلاح بھی ممکن ہے ،فساد بھی ممکن ہے،آج کل میڈیا سیاست دانوں کی  ملکیت بن چکا ہے، وہ چاہیں بتائیں جو چاہیں چھپائیں۔بڑے بڑے ذرائع پر یھودیوں کا غلبہ ہے،جیسے  CNN,BBC,CBS,NBC,CBC  ان تمام پر یھودیوں کا غلبہ ہے ،یہ دنیا کو جو بتا ئیں دنیا اسی کو سچ سمجھتی ہے۔آج میڈیا تفتیش کے نام کردار کشی کا انجام  دے رہی ہے،آج میڈیا کا ایک بڑا مشغلہ  اسلام کے خلاف شکوک پیدا کرنا  ،مسلمانوں کو بدنام کرنا ،ناکردہ جرائم کو ان سروں  پر عدالت کے مجرم قرار دینے سے پہلے  مجرم قرار دینا ،اس کا بہت پیارا مشغلہ بن چکا ہے۔دنیا والے  کتنا ہی قتل وغارتگری مچائیں  اس  سے آنکھ بند کر لینا ،بلکہ  ان کے فسادات ،ان  کی قتل وغارتگری کو مسلمانوں کے سر تھوپنا  اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔اسلام کے معقول حل کو پرابلم بنا کر پیش کرتا ہے،جیسے پردہ ، جو کہ بہت ساری برائیوں  کو روکنے کا ذریعہ ہے اس  کو ایک پرابلم بنا کر  پیش کرتا ہے۔شراب،زنا ،خنزیر  جو بہت ساری برائیوں کی جڑ ہے اسلام  کو  روکتا ہے لیکن اس کو مسئلہ بنا کر پیش کرتا ہے،اسلام کے خلاف  جو  لکھتا ہے ،بولتا ہے ،اس کو ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے،اس کو اوارڈ  دینے کے لائق بنا کر پیش کرتا ہے،اسلام اور مسلمانوں کی خوبیاں بھی خامیا ں  بنا کر پیش کرتا ہے،مسلمانوں کے مذہبی معاملوں میں   جیسے نکاح ،طلاق ،وراثت ،حجاب ،ڈاڑھی کے  مسائل مین گہرائی سے مطالعہ کئے بغیر  دخل اندازی کرتا ہے۔

آج کے میڈیا  کی سب سے بڑی   خرابی  وہ جج بنا بیٹھا ہے ،ہندوستانی قانون کے مطابق  ہر ہندوستانی اس وقت   بے گناہ ہے  جب تک   اس کو  عدالت مجرم قرار  نہ دے۔اگر عدالت مجرم قرار دے تو ہی مجرم کہا جاسکتا ہے ۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے   آج   سب سے پہلے  میڈیا ہی مجرم قرار دیتا ہے،میڈیا ہی سزا  سنا دیتا ہے۔جب کہ اس  کو عدالت سے پہلے مجرم قرار دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔میڈیا کے سارے لوگ ایسے نہیں ہیں لیکن جو بھی  غلط رپورٹنگ کرنے والے ،سماج میں سنسنی پھلیانے والے ،باتوں کو آوٹ آف کانٹیکسٹ  پیش کرنے والے،تعداد میں بہت  زیادہ ہین جس کی وجہ  سے  میڈ یا کے چہرے  پر ایک دھبہ لگا ہوا ہے۔

میڈیا کی ذمہ داری ہے  برائی کو مٹائے،بھید بھاو کو ختم کرے ،غلط فہمیوں کو پیدا کرنے  کے بجائے غلط فہمیوں کو مٹائے،خبروں کو مرچ مسالہ لگائے بغیر سنائے،بنا تحقیق کے بات نہ کرے،تحقیق دونوں طرفہ ہو،بات دونوں فریق  کی سنے، اگر ڈبیٹ ہو تو  دونوں فریق کی بات جنتا کو سنائے ،خود جج بن کر نہ بیٹھے ، فیصلہ جنتا کو چھور دے،اگر  کسی کو ڈبیٹ کے لئے بلایا جائے تو اس کو بولنے کا  پورا موقعہ دے،درمیاں میں بار بار اس کی بات کو کاٹ کر   اسکے ٹائم کو برباد نہ کرے۔ جو انکر ہوتا ہے  وہ غیر جانب دار رہے، وسیع ذہن کا مالک ہو،تجربہ کار ہو،جس مدے پر بات کرتا ہو اس کا بھرپور  اسٹڈی ہو،ایک طرفہ  بات  نہ کرے۔

سماج  کے حقیقی مسائل پر  زیادہ وقت لگائے،جیسے غریبی ہے   ناخواندگی ہے،حفظان صحت ہے،مساوات ہے،رواداری ہے،صبر وتحمل  ہے،برداشت ہے،ان چیزوں کی چرچہ کرے۔ملک میں سب کے ساتھ مل کر جینے کا طریقہ سکھائے۔

آج مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ میڈیا کو صرف کوسنے کے بجائے   میڈیا کے جواب میں میڈیا کا استعمال کرے۔ میڈیا کا جھوٹ  میڈیا کے ذریعہ ثابت کرے۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 0 / 5. Vote count: 0

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply