قصہ ایک جادوگر بچہ کا

قصہ ایک جادوگر بچہ کا
پیارے بچو ! گزرے ہوئے زمانے کی بات ہے کہ ان میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا اور اس کا ایک جادوگر تھا ۔ جب وہ جادوگر بوڑھا ہوا تو بادشاہ سے بولا : میں بوڑھا ہو گیا ہوں، میرے پاس کوئی لڑکا بھیج دو کہ میں اس کو جادو کی تربیت دوں ۔ بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیجا وہ اس کو جادو سکھلاتا تھا ۔ اس لڑکے کے آنے جانے کے راستے میں ایک عیسائی عالم رہتا تھا ، وہ لڑکا اس کے پاس بیٹھا اور اس کی باتیں سنا تو اسے اس کی باتیں اچھی لگیں ۔ اب جادوگر کے پاس جاتا تو عیسائی عالم کی طرف سے ہو کر نکلتا اور اس کے پاس بیٹھتا ، پھر جب جادوگر کے پاس جاتا تو جادوگر اس کو ( دیر سے آنے کی وجہ سے ) مارتا ۔ آخر لڑکے نے جادوگر کے مارنے کا عیسائی عالم سے شکایت کیا تو راہب نے کہا : جب تو جادوگر سے ڈرے ، تو یہ کہہ دیا کر کہ میرے گھر والوں نے مجھ کو روک رکھا تھا اور جب تو اپنے گھر والوں سے ڈرے ، تو کہہ دیا کر کہ جادوگر نے مجھے روک رکھا تھا ۔ اسی حالت میں وہ لڑکا رہا کہ اچانک ایک بڑے درندے پر گزرا کہ جس نے لوگوں کے راستے کو روک رکھا تھا ۔ لڑکے نے کہا : آج میں معلوم کرتا ہوں کہ جادوگر سچا ہے یا عیسائی عالم ؟ اس نے ایک پتھر لیا اور کہا کہ الٰہی اگر عیسائی عالم کا طریقہ تجھے جادوگر کے طریقے سے زیادہ پسند ہو ، تو اس جانور کو قتل کردے تاکہ لوگ گزر جائیں ۔ پھر اس کو پتھر سے مارا تو وہ جانور مر گیا اور لوگ گزرنے لگے ۔ پھر وہ لڑکا عیسائی عالم کے پاس آیا اسے یہ حال سنایا تو وہ بولا کہ بیٹا تو مجھ سے بڑھ گیا ہے ، یقیناً تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو عنقریب آزمایا جائے گا ۔ پھر اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا ۔ اس لڑکے کا یہ حال تھا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا اور ہر قسم کی بیماری کا علاج کرنا شروع کر دیا ۔ یہ حال جب بادشاہ کے وزیر جو کہ اندھا ہو گیا تھا سنا تو اس لڑکے کے پاس بہت سے تحفے لایا اور کہنے لگا : یہ سب مال تیرا ہے اگر تو مجھے اچھا کر دے ۔ لڑکے نے کہا : میں کسی کو اچھا نہیں کرتا ، اچھا کرنا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے ، اگر تو اللہ پر ایمان لائے تو میں اللہ سے دعا کروں گا تو وہ تجھے اچھا کر دے گا ۔ وہ وزیر اللہ پر ایمان لایا تو اللہ نے اس کو اچھا کر دیا ۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس کے پاس بیٹھا جیسا کہ بیٹھا کرتا تھا ۔ بادشاہ نے کہا : تیری آنکھ کس نے روشن کی؟ وزیر بولا : میرے مالک نے ۔ بادشاہ نے کہا : میرے سوا تیرا مالک کون ہے؟ وزیر نے کہا : میرا اور تیرا مالک اللہ ہے ۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور عذاب دینا شروع کیا ، یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا نام لے لیا ۔ وہ لڑکا بلایا گیا ۔ بادشاہ نے اس سے کہا : اے بیٹا تو جادو میں اس درجہ پر پہنچا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہے اور بڑے بڑے کام کر گذرتا ہے؟ وہ بولا : میں تو کسی کو اچھا نہیں کرتا
بلکہ اللہ اچھا کرنے والا ہے ۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور مارتا رہا ، یہاں تک کہ اس نے راہب کا نام بتا دیا ۔ راہب پکڑ لیا گیا ۔ اس سے کہا گیا : اپنے دین سے پھر جا۔ اس کے نہ ماننے پر بادشاہ نے ایک آرہ منگوایا اور راہب کی مانگ پر رکھ کر اس کو چیر ڈالا ، یہاں تک کہ وہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا ۔ پھر وہ وزیر بلایا گیا ، اس سے کہا گیا : تو اپنے دین سے پھر جا ، اس نے بھی نہ مانا اس کی مانگ پر بھی آرہ رکھا گیا اور چیر ڈالا یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا ۔ پھر وہ لڑکا بلایا گیا ، اس سے کہا : اپنے دین سے پلٹ جا ، اس نے بھی انکار کیا ۔ تو بادشاہ نے اسے اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا : اس کو فلاں پہاڑ پر لے جا کر چوٹی پر چڑھاؤ ، جب تم چوٹی پر پہنچو تو اس لڑکے سے پوچھو ، اگر وہ اپنے دین سے پھر جائے تو خیر ، نہیں تو اس کو گرا دو ۔ وہ اس کو لے گئے اور پہاڑ پر چڑھایا ۔ لڑکے نے دعا کی : الٰہی جس طرح تو چاہے مجھے ان کے شر سے بچا ۔ پہاڑ ہلا اور وہ لوگ گر پڑے ۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس چلا آیا ۔ بادشاہ نے پوچھا : تیرے ساتھی کہاں گئے؟ اس نے کہا : اللہ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا ۔ پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا : اس کو ایک کشتی میں دریا کے اندر لے جاؤ ، اگر اپنے دین سے پھر جائے تو خیر ، ورنہ اس کو دریا میں دھکیل دینا ۔ وہ لوگ اس کو لے گئے ۔
لڑکے نے کہا : الٰہی ! تو مجھے جس طرح چاہے ان کے شر سے بچا لے ۔ وہ کشتی الٹی اور لڑکے کے سوا سب لوگ ڈوب گئے اور لڑکا زندہ بچ کر بادشاہ کے پاس آ گیا ۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا : تیرے ساتھی کہاں گئے؟ وہ بولا : اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا ۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا : تو مجھے اس وقت تک نہ مار سکے گا ، جب تک کہ جو طریقہ میں بتلاؤں وہ نہ کرے ۔ بادشاہ نے کہا : وہ کیا؟ اس نے کہا : تو سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر کے مجھے ایک لکڑی پر سولی دے ، پھر میرے ترکش سے ایک تیر لے کر کمان کے اندر رکھ ، پھر کہہ : اس اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے ۔ پھر تیر مار ۔ اگر تو ایسا کرے گا تو مجھے قتل کر سکے گا ۔ بادشاہ نے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا ، اس لڑکے کو درخت کے تنے پر لٹکایا ، پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا اور تیر کو کمان کے اندر رکھ کر یہ کہتے ہوئے مارا کہ اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے ۔ وہ تیر لڑکے کی کنپٹی پر لگا ۔ اس نے اپنا ہاتھ تیر کے مقام پر رکھا اور مر گیا ۔ لوگوں نے یہ حال دیکھ کر کہا : ہم تو اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ۔ کسی نے بادشاہ سے کہا : اللہ کی قسم ! جس سے تو ڈرتا تھا وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے ۔ بادشاہ نے راستوں کے نالوں پر خندقیں کھودنے کا حکم دیا ۔ پھر خندقیں کھودی گئیں اور ان میں خوب آگ بھڑکائی گئی اور کہا : جو شخص اس دین سے ( یعنی لڑکے کے دین سے ) نہ پھرے ، اسے ان خندقوں میں دھکیل دو ، یا اس سے کہا جائے کہ ان خندقوں میں گرے ۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا ، یہاں تک کہ ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا ، اس عورت نےآگ میں گرنے سے تردد کیا تو بچے نے کہا : اے ماں! صبر کر تو سچے دین پر ہے۔( صحیح مسلم : 7511 )
پیارے بچو! مذکورہ قصہ سے ہمیں بہت ساری نصیحتیں حاصل ہوئی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں ۔
اللہ کے ولی ہی ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں ۔
جادوگر ہمیشہ ناکام ہی رہتے ہیں ۔
جادوگر کا وقتی طور پر اثر ظاہر ہوتا ہے لیکن اس کو سیکھنا اور سکھانا حرام ہے ۔
ہر چیز اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جو کرتا ہے وہ اپنی قدرت سے کرتا ہے ۔
حق پر آزمائشیں آئیں گی لیکن صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے ۔
ظالم کے ظلم سے بچنے کے لیے اللہ سے دعائیں کرنا چاہیے ۔
جب انسان اللہ کی بات مانے تو ساری مخلوق اس کی سنتی ہے۔