شب معراج کی حقیقت

شب معراج کی حقیقت
نورالدین عمری یم اے ،یم فل
۲۷رجب کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ یہ شب ِ معراج ہے، اور اس شب کو بھی اسی طرح گذارنا چاہیے جس طرح شب قدر گذاری جاتی ہے اور جو فضیلت شبِ قدر کی ہے، کم وبیش شب معراج کی بھی وہی فضیلت سمجھی جاتی ہے۔
اور پھر اس رات میں لوگوں نے نمازوں کے بھی خاص خاص طریقے مشہور کر دئیے کہ اس رات میں اتنی رکعات پڑھی جائیں اور ہر رکعت میں فلاں فلاں سورتیں پڑھی جائیں۔ اللہ جانے کیا کیا تفصیلات اس نماز کے بارے میں مشہور ہو گئیں۔ خوب سمجھ لیجئے: یہ سب بے بنیاد باتیں ہیں ،شریعت میں ان کی کوئی اصل اور کوئی بنیاد نہیں۔
تمام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معراج کا واقعہ پیش آیا لیکن یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ ۲۷ رجب یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ کیونکہ اس بارے میں لگ بھگ ۳۶ باتیں منقول ہیں ، ۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے، بعض روایتوں میں رجب کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون سی رات صحیح معنوں میں معراج کی رات تھی، جس میں رسول اللہ ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔
اس سے آپ خود اندازہ کر لیں کہ اگر شب معراج بھی شبِ قدر کی طرح کوئی مخصوص عبادت کی رات ہوتی، اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے جس طرح شبِ قدر کے بارے میں ہیں، تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا؛ لیکن چونکہ شب معراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے ۲۷ رجب کو شبِ معراج قرار دینا درست نہیں۔
اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ آپ ﷺ ۲۷ رجب کو ہی معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے، جس میں یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو یہ مقام ِ قرب عطا فرمایا اور اپنی بارگاہ میں حاضری کا شرف بخشا، اور امت کے لیے نمازوں کا تحفہ بھیجا، تو پھر نبی کی زندگی میں یہ معراج کی رات لگ بھگ دس سے زائد مرتبہ آئی، لیکن آپ ﷺ نے شبِ معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم کیوں نہیں دیا ، یا اس کو منانے کا حکم کیوں نہیں دیا ، یا اس کو منانے کا اہتمام کیوں نہیں فرمایا ، نہ تو آپ ﷺ کا ایسا کو ئی ارشاد ثابت ہے، اور نہ آپ ﷺ کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے، نہ خود آپ ﷺ جاگے اور نہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تاکید فرمائی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔
پھر رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تقریباً سو سال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دینا میں موجود رہے ، اس پوری صدی میں کوئی ایک واقعہ ثابت نہیں ہے، جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ۲۷ رجب کو خاص اہتمام کر کے منایا ہو۔حضرت ابو ہریرہ ۵۰ سالہ اسلامی زندگی گزاری کبھی بھی شب معراج نہیں منایا،عبد اللہ بن عمر کو ۷۳ سال اسلامی زندگی نصیب ہوئی ،حضرت انس کو ۹۵ سال اسلامی زندگی نصیب ہوئی لیکن ایک مرتبہ بھی شب معراج نہیں منائی،۳۰ سال تک خلفائے راشدین نے شان وشوکت سے حکومت کی،عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ۲۳ لاکھ مربع میل پر حکومت کی،عثمان غنی نے ۴۴ لاکھ مربع میل پر حکومت کی،حضرت معاویہ نے ۶۴ لاکھ مربع میل پر حکومت کی لیکن کبھی معراج کی رات جشن نہیں منایا،۱۱۵ ھ تک صحابہ کا زمانہ رہا ۱۷۰ تک تابعین کا زمانہ رہا،،۲۲۰ ھ تک تبع تابعین کا دور رہا،لیکن شب معراج نہیں منائی گئی،۳ صدی ھجری میں امام شافعی،امام احمد بن حنبل ،امام بخاری امام مسلم،امام ابوداود،امام ترمذی،آئے ۴ صدی ھجری مین امام نسائی،ابن خزیمہ آئے،۵ صدی ھجری میں امام بیھقی،امام حاکم آئے،۶ صدی ھجری مین امام غزالی آئے،۷ صدی ھجری مین امام نووی آئے،۸ صدی ھجری مین ابن تیمیہ،ابن قیم ،امام ذھبی آئے ۹ صدی ھجری مین ابن حجر عسقلانی آئے لیکن کسی نے شب معراج نہین منائی۔ امام ابو حنیفہ نے شیخ عبدالقادر جیلانی نے شب معراج نہین منائی لیکن ہمارے نادان بھائی ان کی پیروی کرنے کا دعوی کرتے ہیں اور ائمہ کرام کے عمل کے خلاف شب معراج مناتے ہیں ،در اصل ان حضرات کو نہ نبی سے سروکار ہے نہ صحابہ سے،نہ تابعین سے،نہ ائمہ کرام سے ،اگر حقیقت مین ان سے سروکار ہوتا تو دیکھتے کہ یہ عمل ان سے ثابت ہے یا نہین اگر ثابت ہوتا تو کرتے ورنہ چھوڑ دیتے،لیکن چونکہ ان کو منانا ہے اس لئے کسی کی بات نہٰن مانیں گے،اور جاگنے کے من گھڑت فضا ئل بیان کریں گے،رات بھر بیان کریں گے،حالانکہ اس معراج کا اصل تحفہ نماز ہے، نماز کی کوئی بات نہیں ہوگی،نمازوں سے غفلت پر کوئی بات نہین ہوگی،عمل کی کوئی بات نہیں ہوگی، نوجوانوں کے بگاڑ پر،رشتے ناتو ں کے بگاڑ پر،شراب نوشی پر،سود خوری پر، بے حیائی پر بے پردگی پر،کوئی بات نہیں کرےگا،لیکن رات بھر اھل حدیثوں کو گالیان ضرور دیں گے،برا بھلا کہیں گے،
اس رات بلایا جانے والا مقرر اس وقت تک کامیاب نہیں سمجھا جاتا جب تک کہ وہ دوسرون کو برا بھلا نہ کہے، ان بے چاروں کو نذرانے کی فکر ہوتی ہے اسی لئے خوب بڑھ چڑھ برا بھلا کہین گے ،رات دیر گئے یہ جلسہ منعقد ہوتے ہیں قوم کا پڑھا لکھا طبقہ یا سمجھ دار طبقہ تو سامعین میں نہیں ہوتا ہے اس لئے جو جی مین کہہ دیتے ہیں اور نعرے بلند کرتے ہیں،کاش یہ نبی کی پیروی کرتے،صحابہ کی پیروی کرتے،ائمہ کرام کے پیروی کرتے تو برا بھلا نہ کہتے،ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ ان کو ھدایت نصیب فرما،راہ راست پر چلنے والا بنائے،دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے،