رسول اکرم بحیثیت معلم

ایک بار محسن انسانیت ﷺ مسجد نبوی شریف میں تشریف لائے اور دیکھا کہ صحابہ کے دو گروہ وہاں پر الگ الگ بیٹھے ہیں،ایک گروہ ذکر اذکار میں مشغول تھا جب کہ دوسرا گروہ تعلیم و تعلم کا شغف کر رہا تھا،آپ ﷺ نے دونوں کو پسند یدگی کی نگاہ سے دیکھا اور پھر تعلیم و تعلم والے گروہ کے ساتھ شریک ہو گئے اور ارشاد فرمایا کہ ’’بعثت معلماََ‘‘لہ مجھے معلم بناکر بھیجا گیاہے۔

پیارے نبی ﷺ انسانیت کے آخری معلم  ہیں  کیوں کہ آپ نے معلمانہ اخلاقیات کی تکمیل کر دی ہے ،دیگر معلمین تو قیامت تک آتے رہیں گے لیکن وہ اس میدان میں کسی بھی طرح کااضافہ نہ کر پائیں گے اورعمل تدریس کے لیے آپ ﷺ کے طریقوں کی پیروی سے ہی انسانوں کے ذہنوں میں کوئی بات ڈالی جائیگی اور وہی طریقے ہی موثر رہیں گے جو خاتم المعلمین ﷺنے اختیار کیے۔

آپ ﷺ کامبارک طریقہ تھا کہ بات کو ذہن نشین کراتے ہوئے مثالیں دیاکرتے تھے اس طرح مدرسہ نبوی ﷺ کے طلبہ جلدی سے بات سمجھ لیتے،جیسا کہ آپ ﷺ نے اﷲ تعالی کے راستے میں مال دے کر پھر واپس لے لینے والے کی مثال دی کہ جیسے کتا قے کر کے چاٹناشروع کر دے۔ایک بار ایک صحابی نے دریافت کیاکہ میرے والد مرحوم نے حج نہ کیاتھا تو کیامیں ان کی جگہ اس فرض کی ادائگی کر سکتاہوں؟؟آپ ﷺ نے مثال دے کر سمجھایا کہ تمہارے والدمرحوم کو کسی کا قرض اداکرناہوتا تو کیا وہ قرض بھی تم ادا کرتے؟؟جواب ہاں میں تھاچنانچہ آپ نے اجازت مرحمت فرمائی کہ والدمرحوم کی جگہ حج بھی اداکیاجاسکتاہے۔

آپ ﷺ کسی اہم بات کو ذہن نشین کراتے ہوئے تین بار دہرایاکرتے تھے۔جیسے ۔ایک بار آپ ﷺنے اپنے سینے کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ’’تقوی یہاں ہوتاہے،تقوی یہاں ہوتاہے،تقوی یہاں ہوتاہے‘‘،اس ارشاد مبارک کاایک مطلب یہ بھی ہے کہ تقوی کااصل مقام دل ہوتاہے نہ کہ کسی طرح کالبادہ یاحلیہ وغیرہ۔

کبھی کبھی آپ ﷺ اپنے طالب علموں سے امتحان کی غرض سے سوال بھی پوچھاکرتے تھے تاکہ اس طرح بھی کوئی بات ذہن نشین ہوجائے۔حدیث جبریل کے موقع پرآپ ﷺ نے حضرت عمرؓ سے استفسار فرمایا،عمرجانتے ہویہ کون تھا؟؟،حضرت عمرؓنے عرض کی اﷲتعالی اور اس کارسولﷺہی بہتر جانتے ہیں،ارشادفرمایا یہ جبریل علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارادین سکھانے آئے تھے۔

آپ ﷺ کی زبان نہایت شستہ اور دلنشین ہوتی تھی،۔

آپ طالبعلمکاخیرمقدم کرتے تھے،مخاطبلوگوںکوقریبکرتے ،باتکرنےسےپہلےلوگوںکوچبکراتے،

شاگردوںکونام،کنیتیالقبسےپکارتے،شاگردوںکے کبھی کندھے پر ہاتھ رکھ کر سمجھاتے ،کبھی ہاتھ پکڑ کر،شاگردوںکےلیےدعا بھی کرتے،اشاروںکااستعمال بھی کرتے،اور کسی مسئلہ لکیروں کے ذریعہ بھی سمجھاتے،اور آپ ایک کامیاب معلم اس حیثیت سے بھی تھے پہلے آپ خود عمل کرتے پھر طلبہ سے کہتے،آپ کا اسلوب عام طور پر تقابلی ہوتا تھا ،اکثر وبیشتر پہلے کسی بھی بات کو اجمالی بتاتے پھر اس کی تفصیل بتاتے،اگر کوئی بات شرم وحیا والی ہوتی اس کو اشاروں اور کنائے سے بتاتے،اور ااگر کوئی بات شرم والی بھی ہوتی ااور اس کو بیان کرنا ضروری ہوتا تو آپ نہ شرماتے،بلکہ اس کی وضاحت کرتے تاکہ امت کو عمل میں آسانی ہو،آپ کی مجلس میں ہر ایک کو سوالکرنےکیاجازت،تھی،اگر کوئی عمدہ سوال کرتا تو اس کی تعریف کرتے،تاکہ سوال کرنے والے کی ہمت افزائی ہو،آپ کی تعلیم میں سوال جواب والا سسٹم زیادہ تھا،اور اگر آپ کو بات معلوم نہ ہوتی تو وحی کا انتظار کرتے پھر جواب دیتے،لایعنی اور بیکار سوالات پر تنبیہ بھی کرتے تھے،آپ ہمیشہ تواضع سے رہتے ،غریب ومسکین طلبہ کی کفالت بھی کرتے ،اور طلبہ کی صلاحیتوں کی مناسبت سے کام لیتے،

ہمیشہ طلبہکےحالاتکوپیشنظررکھتے،لائقشاگردوںکیعزتافزائی کرتے،طلبہکیغیرحاضریکانوٹسلیتے،

حسن خلق آپ کی تدریس کا سب سے عمدہ پہلو ہے آپ کے طلبہ آپ کے حسن خلق کی وجہ سے کھنچتے چلے آتے،خود اﷲ تعالی نے بھی قرآن میں آپ ﷺ کے حسن خلق کی تعریف کی ہے۔آپ ﷺ اپنے طلاب علموں کے لیے کثرت سے دعائیں بھی کرتے تھے۔قیامت تک کی انسانیت آپ کی طالب علم ہے اور آپ ﷺ کی امت تو خاص طور پر آپ کی طالب علم ہے آُ ﷺ نے اپنی امت کے لیے خاص طور پر اور کل انسانیت کے لیے عام طور پر بے حد دعائیں کی ہیں،یہ نبی علیہ السلام کی دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے کہ گزشتہ اقوام کی سب خرابیاں موجودہونے کے باوجود امت مسلمہ اور کل انسانیت تباہ نہیں کی گئی۔محسن انسانیت ﷺ روز محشر بھی اپنے طالب علموں کو یاد رکھیں گے اور آپ نے اپنے صحابہ کو فرمایا قیامت کے دن حوض کوثرپر آجانا میں وہاں

موجود ہوں گا،تب آپ ﷺ اپنے طالب عملوں کی شفاعت فرمائیں گے۔اﷲ تعالی ہمیں آپ ﷺ کا سچا طالب علم بنائے ،آمین۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 1 / 5. Vote count: 1

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply