دین کی سمجھ سب سے بڑی نعمت ہے

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ))

” جس  کے  ساتھ اللہ  تعالی بھلائی کا  ارادہ فرماتا ہے ،   اس کو دین کی سمجھ عطا فرمادیتا ہے ۔”

(صحیح مسلم ، الزکاۃ  ، باب النھی عن المسالة  ، حديث : 1037)

دين  پورے نظام ِ زندگی کا نام ہے جس میں تجارت و معیشت بھی ہے اور سیاست و معاشرت بھی ، اخلاقیات بھی ہیں اور معاملات بھی ،حقوق و فرائضِ انسانی کی تفصیلات بھی ہیں اور روح  کی تسکین واصلاح کے لیے عبادات کا سلسلہ بھی ۔ جب  ایک انسان کو تمام معاملات میں قرآن وحدیث کے احکامات معلوم ہوجاتے ہیں  تو اس کا ہر قدم   سیدھے راستے پر  اٹھتا ہے ۔ اس کی سوچ گمراہی  سے محفوظ  ہوجاتی ہے ۔ وہ اخلاق  و کردار کے اس اعلی مقام پر پہنچ  جاتا ہے  جسے اللہ تعالی پسند فرماتا ہے ۔ اس کی   زندگی  پر کسی  گمراہی   کا سایہ            نہیں پڑتا  ۔  جس کو دین کی سمجھ  مل گئی وہ ایک پیس فل سٹیزن ، ایک دیانت دار  امانت دار تاجر اور ایک  انصاف پسند  حکمران ہوتا ہے۔ ایک کامیاب شوہر، خیرخواہ  باپ   اور غم خوار  دوست ہوتا ہے۔غرض   وہ معاشرے میں جس  پوزیشن  کا بھی  مالک ہوتا ہے،اسے  خیر  کے ساتھ نبھانے  والا ہوتا ہے۔

انسان میں یہ  خوبیاں  کب  پیدا ہوتی ہیں؟ دینِ اسلام کی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے  سے پیدا ہوتی ہیں۔۔جسے دین کی سمجھ حاصل ہوگئی ، حلال و حرام  کی تمیز اس کے سامنے واضح ہو  گئی  اور اس نے اللہ تعالی کی توفیق سے حلال راستے کو پہچان کر  اسے اختیار کرلیا اور حرام س بچا  رہا ، اللہ تعالی کی عبادت کو بھی اپنی زندگی کے معمولات کا ایک حصہ بنا لیا تو سمجھ لو کہ وہ دین  و دنیا  کی سعادتوں کا  حقدار بن گیا ، ہلاکت و بربادی کے گہرے گڑھے  میں گرنے سے بج گیا ، جہنم کے گڑھے سے نکل گیا اور  جنت   کی ہمیشہ کی نعمتوں کا مستحق قرار پاگیا  ، اس  لیے  کہ بھلائی ، دولت کے ڈھیر میں نہیں ہے  ،  وزرات و صدارت اور گورنری کے  عہدے  میں نہیں ہے  ،   بڑی بڑی کانچ کی  عمارتوں اور خوش نما  بنگلوں  میں نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف دین کی سمجھ حاصل ہوجانے میں ہے ۔ اللہ تعالی نے جس کو دین اسلام کیسمجھ دے دی اور اس پر  عمل  کی توفیق  دی ،تو  یقینا اس کو اس نے  بھلائیوں سے مالا مال کردیا ۔    جَعَلَنَا اللہُ مِنْھُمْ اللہ سے دعا ہے  کہ ہم انہی لوگوں میں شامل فر مائے ۔

1دین خیر خواہی کا نام ہے

رسول اللہﷺ نے فرمایا :((اَلدِّینُ النَّصِیْحَةُ ))”دین خیر  خواہی کا نام ہے۔”   (صحیح مسلم ،  الايمان  ، باب بيان ان الدين  النصيحة ، حديث :55)    اس کا کیا مطلب ہے؟نبئ کریم ﷺ کا یہ فرمان ایسے  ہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا:((اَلحَجُّ عَرَ فَةُ ))”حج ،عرفے کا  نام  ہے ۔”(مسند  احمد :4/309 ،  وصحيح الجامع الصغير ، حديث :3172)یعنی عرفات  میں  ٹہرنا   حج  کا اہم  ترین  رکن ہے اور اس کے بغیر  حج صحیح نہیں۔اسی طرح  خیر خواہی دین کا اہم ترین فریضہ ہے، جس شخص  کے اندرخیر  خواہی کا جزبہ نہیں،اس کا دین  بےکار ہے۔

حدیث میں اس  کی مزید تفصیل  بیان ہوئی ہے ، صحابئہ کرام  رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ سے  پوچھا    ” لِمَنْ ”کس کی خیر خواہی کرنی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا    ” اللہ کی ، اس کے  کتاب کی ، اس کے رسول کی ، مسلمانوں کے حکمرانوں کی اور عام مسلمانوں کی ۔ ،،

اللہ کی خیر خواہی کا مطلب  کیا ہےَ؟اللہ کی خیر خواہی کا مطلب اس پر  ایمان لانا ، اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ہے  وغیرہ ۔ اس میں دراصل انسان کی اپنی خیر خواہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ  کسی  کی خیر خواہی کا محتاج نہیں ۔

کتاب اللہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کا کلام  اور اسی کی طرف سے نازل شدہ  سمجھا جائے ۔ اس کی تلاوت ، کی جائے  اس پر عمل  کیا جائے اوراس میں  رد وبدل نہ کیا جائے  ۔

رسول اللہ ﷺ کی خیر خواہی کا مطلب؟ آپ کی رسالت کی تصدیق  کی جائے ، آپ کے احکام کی اطاعت  کی جائے اور آپ کی سنت و شریعت کا اتباع  کرنا ہے ۔

امراء و حکام کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق باتوں میں ان کے ساتھ تعاون  کیا جائے اور گناہ والے کام  کو چھوڑ کر   اچھی  باتوں میں ان کی اطاعت کی جائے ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ان کو سیدھا رکھنے کی  کوشش  کی جائے اور ان کے خلاف بغاوت  نہ کیا جائے جائے  اِلّا یہ کہ ان سے کفر یہ عقائد یا اعمال کا اظہار ہو ۔

اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی  کا مطلب یہ ہے کہ ان کو بھی  ایسے مشورے دیے جایئں جن میں ان کی بھلائی ہو اور ان کے لیے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام ہو ۔

اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں  خیر خواہی کی  بہت بڑی اہمیت ہے ،یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم سے بیعت لیتے  وقت جن باتوں کی تاکید فرمایا کرتے تھے ، ان میں ہر  مسلمان کی خیر  خواہی کرنا بھی شامل ہوتا تھا ۔ جیسے  حضرت جریر بن عبد اللہ  رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز  کے قائم کرنے ، زکاۃ  ادا کرنے  اور ہر مسلمان  کی خیر خواہی  کرنے پر بیعت کی ۔

اس کے علاوہ  قرآن ِ مجید میں بھی ارشاد باری تعالیٰ ہے :

(( إنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ  ))        (الحجرات 49 : 10)

” سب مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ ”

اور حدیث میں فرمایا گیا ہے  :

(( لَا يُؤْمِنُ  أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسهِ ))

” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ  اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے  پسند  کرتا ہے ۔ ”

(صحيح البخارى ، الإيمان ،باب من الإيمان أن يحب لأخيه …..  ، حديث : 13 ، وصحيح مسلم ، الإيمان ، باب الدليل على أن من خصال الإيمان …..  ، حديث : 45)

تو اس   کا تقاضا یہ ہے کہ ہر مسلمان کے ساتھ ایسا ہی برادرانہ ،ہمدردانہ اور خیرخواہانہ معاملہ کیا جائے جیسا وہ دوسروں سے اپنے لیے چاہتا ہے۔

اگرمسلمان اس سبق کو اچھی طرح یاد کرلیںاور اسے اپنی عمل زندگی میں اپنا لیں تو یقیناً کوئی مسلمان  دوسرے  مسلمان کے ساتھ دھوکہ اور فریب نہیں  کر ے گا اور نہ کوئی ایسا رویہ  اختیار کرے گا جس سے دوسرے مسلمان کو دکھ  یا نقصان پہنچنے کا احتمال ہو ۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 0 / 5. Vote count: 0

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply