خلع کیوں ،کب اور کیسے؟

خلع کیوں ،کب اور کیسے؟
آج ہمارے معاشرے میں خواتین کے لئے خلع کا مطالبہ کرنا بہت آسان نظر آرہا ہے،آج اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے کہ خلع کن چیزوں کی وجہ سے مانگا جاسکتا ہے۔
اگر کسی شرعی عذر کی بناء پر بیوی شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو وہ پورا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ شوہر کو واپس کرکے اس سے طلاق لے سکتی ہے ۔
’ شرعی عذر ‘‘ کی مختلف صورتیں ہیں مثلا :
شوہر اپنے حقوق ادا کرنے کے قابل نہ ہو۔
شوہر بلا عذر بیوی کو تنگ کرتا ہو، اسے بلا وجہ مارتا ہو ، گالی گلوچ کرتا ہو اور اس نے اس کا جینا حرام کردیا ہو ۔
شوہر بیوی کے درمیان ناچاقی ہونے کے بعد صلح کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہوں اور شوہر نہ تو اسے اپنے ساتھ رکھنے پر تیار ہو اور نہ ہی اسے طلاق دینے پر آمادہ ہو ۔
شوہر بیوی کو غیر شرعی کام کا حکم دیتا ہو اور سمجھانے کے باوجود باز نہ آ رہا ہو ۔
شوہر کسی خطرناک اور متعدی مرض میں مبتلا ہو اور اس میں بیوی کے مبتلا ہونے کا شدید خطرہ ہو ۔
شوہر طویل عرصے تک اپنی بیوی سے دور رہتا ہو جس کے دوران بیوی کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو ۔
شوہر استطاعت کے باوجود اپنی بیوی کے جائز اخراجات پورے نہ کرتا ہو ۔
شوہر بے دین ہو ، اسلام کے فرائض میں شدید غفلت کرتا ہو اورکبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو اور بار بارنصیحت کے باوجود وہ راہِ راست پر آنے کو تیار نہ ہو ۔
بیوی کو شوہر سے شدید نفرت ہو اور وہ اس کے ساتھ رہنے پر بالکل آمادہ نہ ہو ۔
دونوں کے مزاج میں اس قدر اختلاف ہو کہ ان کا آپس میں نباہ ممکن نہ ہو ۔
اس طرح کے شرعی عذر کی موجودگی میں بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شوہر سے لیا ہوا حق مہر ( پورا یا کچھ حصہ ‘جتنے پر اتفاق ہو) واپس کردے اور اس سے طلاق لے لے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
’’ ہاں اگر تمہیں اس بات کا خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ تعالی کی حدود کی پابندی نہ کر سکیں گے تو پھر عورت اگر کچھ دے دلا کر اپنی گلو خلاصی کرا لے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں ۔‘‘[ البقرۃ : ۲۲۹ ]
اس سلسلے میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کا قصہ بہت مشہور ہے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیاہے ۔ اور وہ اِس طرح ہے کہ
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور انھوں نے اپنے شوہر کی شکایت کی ۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : کیا تم اس کا باغ اسے واپس کردو گی؟ انھوں نے کہا : جی ہاں ۔ تو آپﷺ نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کو فرمایا : اپنا باغ واپس لے لو اور اسے طلاق دے دو ۔ [ البخاری ۔ الطلاق باب الخلع : ۵۲۷۳ ]
خواتین کو یہ بات خوب ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ وہ کسی شرعی عذر کی بناء پر ہی خلع لے سکتی ہے ۔ ورنہ اگر وہ بغیر کسی معقول عذر کے خلع کا مطالبہ کریں گی تو انھیں رسول اکرمﷺ کی ایک صحیح حدیث کے مطابق جنت کی خوشبو تک نصیب نہ ہوگی ۔
رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے :
’’ جو عورت اپنے شوہر سے بغیر کسی عذر کے خلع لے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پائے گی ۔ ‘‘[ ترمذی : ۱۱۸۶۔ وصححہ الألبانی ]
کوئی بھی خاتون جب اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور اس کا شوہر اِس پر آمادہ نہ ہو تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ عدالت سے رجوع کرے اور اس کے حکم پر اس سے خلع لے لے ۔ خلع لے کر وہ خاتون ایک حیض تک انتظار کرے ، پھر وہ چاہے تو کسی اور آدمی سے نکاح کر سکتی ہے ۔ اور اگرکسی اور آدمی سے نکاح کرنے سے پہلے ہی ان کے درمیان صلح ہو جائے اور وہ دونوں ایک بار پھر بطور شوہر بیوی زندگی بسر کرنے پر راضی ہو جائیں تو مہر ونکاح جدید کے ساتھ وہ ایسا کر سکتے ہیں ۔
عدت کس کو کہتے ہیں؟
’عدت‘ سے مراد وہ مدت ہے جس میں طلاق دی گئی عورت کو یا جس کا شوہر انتقال ہو جائے یا جو خلع لے کر جو انتظار کیا جاتا ہے ،اس کو عدت کہتے ہیں ۔اس انتظار کی یعنی عدت کی حکمت یہ ہے کہ حمل کی صورتحال واضح ہو جائے اور اس کے بعد اگر وہ کسی دوسرے آدمی کے ساتھ شادی کرنا چاہے تو کر سکے ۔ایک تو یہ پتہ چل جائے کہ عورت حاملہ ہے یانہیں تاکہ کسی بچے کی نسبت میں اختلاف نہ ہو ۔
دوسرا یہ کہ طلاق رجعی میں طلاق دینے والے کو رجوع کیلئے مہلت مل جائے ۔
میاں بیوی کے درمیان تعلقات کا تقدس برقرار رہے اور مہلت و انتظار کے بعد ہی وہ کوئی اور فیصلہ کر سکیں ۔
اگر عورت حاملہ ہو تو اس کے حمل کی حفاظت ممکن ہو سکے ۔