حکومت اپنی ضد چھوڑ دے

حکومت اپنی ضد چھوڑ دے
سی اےاے اور ین آرسی نے ساری دنیا میں ہندوستا ن کو بدنام کر دیا ہے ہر ملک میں اس قانون کی مذمت کی جارہی ہے ہر جگہ مخالفت کی جارہی ہے ،لیکن حکومت ابھی بھی حالات کو سمجھنے تیار نہیں ہے ، بلکہ اپنی ضد پر اڑی ہے ،انا کا مسئلہ بنا کر ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹنے کی بات کر رہی ہے ۔یاد رکھیں حکومت کے ان اقدامات سے ،اس ضد سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ ملک کی تباہی ہے ۔
ملک میں ہر آدمی پریشان ہے جس کی وجہ سے معشیت کمزور ہوچکی ہے ،معمولی بنگلہ دیش کے مقابلہ میں ہماری معشیت کمزور ہوچکی ہے ۔
حکومت بار بار تین مسلم ملکوں میں ہندوں کے ستائے جانے کی بات کرتے ہوئے ان کو شہریت دینے کی بات کرہی ہے ،جب کہ ان ستائے ہوئے لوگوں کو شہریت دینے سے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ آسان طریقہ یہ تھا جو لوگ بھی پڑوسی ملکوں مین ستائے گئے ہیں اور یہاں آئے ہوئے ہیں ان سے کہا جاتا کہ جو لوگ شہریت حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ فلاں فلاں فارم بھر دیں اور اپنی کاروائی آگے بڑھائیں ۔ بات ختم ہوجاتی اور جو لوگ واقعی ستائے جانے کی وجہ آئے ہوئے ہیں ان کو راحت مل جاتی ۔
اس آسان کام کے بجائے حکومت نے ہندستان بھر کے لوگوں سے یہ مطالبہ کرنا چاہا کہ وہ سب لوگ اپنی شہریت کو ثابت کرنے کے لئے اپنے کاغذات بتائیں ۔تو مسئلہ گمبھیر ہوگیا ۔کیوں کہ ہندوستان میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے باپ دادا سینکڑوں سال سے رہتے آئے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی کاغذات نہین ہیں۔اب وہ لوگ کہاں سے ثابت کریں گے ۔ہر سال سیلاب سے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگ کاغذات کہاں سے لائیں؟ہر سال فسادات کے شکار ہونے والے لوگ جنہوں نے سب کچھ کھویا ہے اب وہ کہاں سے لائیں گے؟
لاکھوں لوگ جو یتیمی کی زندگی بسر کرتے ہوئے بڑے ہوئے جن کو اپنے ماں باپ کا کوئی پتہ نہین ہے وہ لوگ کاغذات کہاں سے لائیں گے؟لاکھوں کی تعداد میں بیوائیں ہیں جن کو کاغذات کیا ہوتے ہین پتہ بھی نہیں اب وہ کاغذات کہاں سے لائیں گے؟
اور جو لوگ کاغذات لائیں گے بھی تو ان کے ماں باپ کے ناموں میں بچوں کے ناموں بے شمار سپیلنگ مسٹیک ہوتی ہیں ،اور صرف سپیلنگ مسٹیک سے کاغذات کو رد کرنا کس قدر ظلم ہوگا۔ان کو اس بات کا بھی علم ہے ہمارے سرکاری کارندے کس قدر جاہل ہوتے ہیں،کس قدر غلطیاں کرتے ہیں۔
آپ کسی بھی سرکاری آفس جائیں ،جہاں پر آپ کو برت سرٹیفکیٹ لینا ہے ،آپ اس کو اپنا نام مکمل capital spelling کے ساتھ دینے کے باوجود غلطی کرتا ہے پھر پرنٹ آوٹ دیتا ہے ،اگر اسی جگہ spelling correction کے لئے کہیں تو وہ اور فارم fill up کرنے کے لئے کہیگا صحیح نام کا Certificate حاصل کرنے پھر چکر کاٹنے لگائیگا ۔اس قدر نااہل عملہ ہے غلطی وہ کرتے ہیں سزا عوام کو ملتی ہے ۔ایسے حاؒلات میں کاغذات کی ذمہ داری عوام پر ڈالنا پھر spelling Mistakes پر ڈٹنشن کیمپ میں بھیجنا اس میں مکمل طور پر نیت کی خرابی نظر آرہی ہے ۔ان کا مقصد کاغذات کے ذریعہ عزت والی شہریت دینا نہین ہے بلکہ کاغذات کا بہانہ بنا کر لوگوں کو پریشان کرنا ہے ۔اسی لئے آج سارا ہندوستان اس کالے قانون کے خلاف کھڑا ہے۔حکومت کا اپنا پرانا حربہ جو بھی اس کی غلط پالیسی کے خلاف آواز اٹھائے بس اس کو ملک کا غدار کہا جائے اور آواز کو دبایا جائے ۔
ملک سے غداری کی اصطلاح بہت ہی آسانی سے استعمال کیا جارہا ہے۔اپوزیشن اس فراڈاور جعلی اصطلاح کو طاقتور انداز سے کنڈم نہیں کر رہا ہے ۔آج اس جعلی اور نام نہاد الزام کو اس قدر طاقتور انداز سے رد کرنے کی ضرورت ہے کہ پھر دوبارہ کسی معصوم کے ساتھ اس کے ذریعہ ظلم نہ کر سکیں ۔
ان کو بتایا جائے کہ دستور کے خلاف جانا غداری ہے ،دستور کا غلط استعمال غداری ہے ،ملک کو توڑنا غداری ہے،ملک میں فسادت پھیلانا غداری ہے ،ملک کی معیشت کو تباہ کرنا غداری ہے،ملک کے ان پڑھ کسانوں سے کاغذات مانگ کر پریشان کرنا ملک سے غداری ہے۔ملک کی اصل ضرورت کو چھوڑ کر ،اصل مسائل کو چھوڑ کر غیر ضروری مسائل پر ملک کا پیسہ لگانا غداری ہے ۔
اس سیاہ قانون کے خلاف پرامن دھرنے جاری رہنا ضروری ہے ،ملک میں جہاں بھی پر امن دھرنے چل رہے ہیں وہاں پر کچھ غیر سماجی عناصر بھیج کر خون خرابہ کراتے ہوئے پر امن دھرنوں کو بدنام کرتے ہوئے ختم کیا جاسکتا ہے اس لئے پر امن دھرنا کرنے والوں کو مکمل چوکس رہنا ہے۔پر امن دھرنا کرنے والوں کو چھیڑ چھاڑ کر ان کے جذبات کو بھڑکا کر فسادات برپا کراتے ہوئے دھرنوں کو بدنام کیا جاسکتا ہے ۔پرامن دھرنا دینے والوں کو بھی ملک کے غدار کہا جاسکتا ہے ۔اخبار میں ان ناجائز پالیسیوں کی مخالفت کرنے والوں کو بھی ملک کے غدار کہا جاسکتا ہے۔کیوں کہ حکومت کے پاس اپنی انا اور ضد کو منانے کا ایک ہی طریقہ ہے کسی کو بھی ملک غدار قرار دو اور کیس درج کرو۔
ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ اس طرح کی پالیسی کو اپنی انا اور ضد کی تسکین کا ذریعہ نہ بنائے ۔وہ سب کو لے کر چلنے کی بات پر قائم رہے،سب کے وکاس کو عملی طور پر انجام دے ۔جو پالیسی بنائی گئی اس مین سب کا وکاس نہیں ہے ،بلکہ الٹا سب کا ناش ہے ۔مسلم دشمنی کو بڑھانے سے اس کو فائدہ نہیں ہوگا بلکہ مسلمانوں کو لیکر چلنے میں ہی اس کا فائدہ ہے ۔مسلمان کسی کے نہیں ہیں بلکہ مسلمان اس کے ہیں جو ان کو اپنے ساتھ لیکر چلے ۔ہم حکومت وقت سے گزارش کرتے ہیں کہ اگر وہ اپنی اس پالیسی کو واپس لے تو اس کا امیج اچھا ہوسکتا ہے ،حکومت آج معیشت کی جس بری حالت سے گزرہی ہے اس میں مزید خرابی سے بچ سکتی ہے۔