حضرت ابرہیم علیہ السلام کی سب سے بڑی صفت  شکر گزاری

قارئین اللہ تعالی نے قرآن مجید  میں  حضرت ابراہیم کی بے شمار صفتیں بیان فرمائی ہیں ان میں ایک صفت شکر گزاری کی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے شَاكِرًا لِّأَنْعُمِهِ ۚ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ       (سورۃ النحل 121)

شاکرا لانعمہ   وہ اپنے رب کی نعمتوں کے شکر گزار تھے ۔اللہ نے اپ کو شکر گزار کہا ۔آج ہم  آپ کی  صفت شکر گزاری   پر ہی  بات کریں گے ،اگر  شکر گزاری  جیسی  صفت ہمارے اندر پیدا ہوجائے تو کتنے فائدے ہوسکتے ہیں ۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام   کی ساری زندگی مشکلات میں ،امتحان  میں گزری ،بچپن مین سکون نہیں تھا،جوانی میں  بھی سکون نہین تھا ،نکاح ہوا لیکن  اولاد نہیں ہوئی ،اولاد ہوئی لیکن بڑھاپے میں  ہوئی ،جب  ہوئی تو  ٌپھر بیٹے کو بیوی   کو صحرا میں  چھوڑنے کا حکم آیا ،جب چلنے پھرنے کے لائق بنے تو ذبح کرنے کا حکم آیا ۔الغرض کوئی لمحہ  آسانی کا نہیں  تھا ،لیکن ان مشکلات ومسائل کے باوجود  پھر بھی شکر گزاری کا یہ عالم کہ اللہ  نے خود کہا شاکرا لانعمہ ، وہ ا اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے شکر گزار تھے ۔

ذرا ہم اپنے گریبان مین جھانک کر دیکھتے ہیں  تو  انعامات کی بھرمار ہے پھر بھی ناشکری   ہے ،اللہ نے زندگی میں کتنی نعمتوں سے نوازا  پھر بھی ناشکری ہوا کرتی ہے ۔انبیاء کرام   تکلیف دہ زندگی کے باوجود شکر گزار ہوتے تھے ۔حضرت نوح کے بارے میں اللہ نے کہا   انہ کان عبدا شکورا

وہ اللہ کے شکر گزار  بندے تھے ۔حضرت سلیمان   نے اللہ سے درخواست کی   رب اوزعنی ان اشکر  نعمتک التی انعمت  علی  ،ائے میرے رب  تو نے مجھے جو نعمتیں دے رکھی ہیں ان کا شکر بجا  لانے کی توفیق عطا فرما ۔اور ایک مقام پر کہا              لیبلونی ااشکر ام اکفر         اللہ نے مجھے یہ نعمتیں دی ہیں یہ دیکھنے کے  لئے کہ کیا میں اس کا شکر گزار بندہ بنتا ہوں یا نہیں ۔

پیارے نبی   صلی اللہ علیہ و سلم جب رات مین عبادت کرتے تو پیروں میں سوجن  آیا کرتی تھی ،اماں عائشہ رضی اللہ عنھا نے پوچھا اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں حالانکہ  اللہ نے آپ کے سارے گناہ معاف   کر رکھا ہے تو آپ نے کہا افلا اکون عبدا شکورا ،ائے عائشہ  کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ  نہ بنوں ؟

شکر ایک ایسا عمل  ہے جس کے بارے میں   قیامت کے دن سوال ہوگا

عن أبي هريرة رضي الله عنه أنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «يقول الله عز وجل يوم القيامة: يابن آدم حملتك على الخيل والإبل، وزوجتك النساء، وجعلتك تَرْبَعُ وترأس، فأين شكر ذلك»؟ [أحمد].

پیارے نبی کا فرمان ہے اللہ تعالی قیامت کے دن  بندے سے کہیگا ،ائے ابن آدم  میں نے تجھے  گھوڑے اور اونٹ کی سواری دی،نکاح کرایا ، میں نے تجھ کو نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ کیا  سرداری کا موقعہ دیا ،ان تمام نعمتوں کا  شکر کہاں ہے؟

چلئے ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ہماری زندگی میں  شکر آجائے  تو کیا کیا فائدے ہوں گے ۔

1اگر آپ کے پاس جو کچھ ہے  اس مین زیادتی  چاہتے ہیں،اور زیادہ چاہتے ہیں  تو پھر شکر بجا لانا   شروع کردیں ۔ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ

اللہ کا فرمان ہے اگر تم شکر گزاری کروگے تو اور نعمتوں میں اضافہ ہوگا ۔اگر  آپ بڑا گھر چاہتے ہیں تو جو ہے اس پر  شکر بجا لا ئیں   اللہ اس سے بڑا گھر عطا کرےگا ،اگر  آپ بڑی نوکری چاہتے ہیں جو ہے اس پر شکر بجالایں بڑی نوکری ملےگی ۔اگر آپ زیادہ مال چاہتے ہیں تو جو ہے اس پر شکر بجالائیں اور زیادہ ملیں گے ۔ان شاءاللہ ۔

2 اگر آپ چاہتے ہیں کہ  اللہ آپ سے راضی ہوجائے   تو شکر بجا لانا سیکھیں ،کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے

وإن تشكروا يرضه لكم ور اگر تم لوگ شکر بجا لاوگے تو وہ تم سے راضی ہوجائیگا ۔

3ااگر تم لوگ    اللہ  کے عذاب  سے بچنا چاہتے ہیں تو شکر بجا لانا سیکھیں

ما يفعل الله بعذابكم إن شكرتم وآمنتم

اگر تم لوگ شکر بجا لاو اور ایمان لاو تو اس کو کیا پڑی ہے کہ تم کو عذاب دے ۔

شکر گزاری کا طریقہ کیا ہے؟

اللہ کی نعمتوں کا  دل سے اقرار کرنا ،زبان سے اس کی  حمد وثنا بیان کرنا ،اس کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو حلال کاموں میں استعمال کرنا  شکر ادا کرنا ہے ۔شکر یہ ہے کہ بندہ یہ سمجھے کہ میں اس  ان نعمتوں کا کوئی حق دار نہیں لیکن پھر بھی وہ مجھے عطا کرتا ہے۔

انکھ ایک نعمت ہے  اس کو گناہ سے بچانا  شکر ہے ،اسی طرح کان ،ہاتھ ،پیر ،ذہن،صلاحیت،حسن ،طاقت ، زبان ،علم ،شہرت ،عہدہ ،منصب یہ سب نعمتیں ہیں ان کو گناہ سے بچانا شکر ہے ۔

 ایک شوہر میں  ایک بیوی میں بہت ساری خامیاں ہوسکتی ہیں لیکن کچھ خوبیاں بھی ہوتی ہیں  ان خوبیوں پر شکر بجا لائیں ، وہ ساری خامیاں خوبیوں میں بدل سکتی ہیں۔

آج   اگر کسی کا دوست نیک ہے  تو اس کا شکر بجا الانا ہوگا ، کسی کا پڑوسی اچھا ہے ،کسی کا نوکر اچھا ہے ،کسی کا مالک اچھا ہے،کسی  کا رشتہ دار اچھا ہے ،کسی کا   costumer اچھا ہے،کسی کا  اسکول اچھا ہے کسی کا استاذ اچھا ہے    تو ان تمام کا شکر بجالانا ہوگا ۔امام شعبی فرماتے ہیں     اگر بندہ شکر بجا لاتا ہے تو  اللہ نعمت کو باقی رکھتا ہے بلکہ اس میں اضافہ فرماتا ہے اور اگر ناشکری کرے تو اس نعمت کو چھین لیتا ہے پھر دوبارہ  اس نعمت کو  دیتا نہیں ۔

امام شعبی اور ایک مقام پر فرماتے ہیں ،اللہ کی نعمتیں جنگلی جانور کی طرح ہوتے ہیں ،اگر  ان کو باندھ کر نہیں رکھوگے تو  بھاگ جاتے ہیں  ۔چنانچہ   اللہ کی  نعمتوں کو باندھ کر رکھنے کا طریقہ شکر بجا لانا ہے ،اگر شکر بجالاتے رہوگے تو  نعمتیں باقی رہیں گی اور بڑھتی جائیں گی اگر ناشکری کروگے تو  نعمتیں چھین لی جائیں  گی  اور واپس لوٹ کر نہیں ائیں گی ۔

ہم اپنی عام زندگی میں کسی اہم چیز کے نہ ہونے پر دکھی رہتے  ہیں شکایتیں کرتے ہیں لیکن جب مل جائے تو  شکر ادا نہیں کرتے ہیں۔گھر بنانے سے پہلے   کافی پریشان رہتے ہیں لیکن جب اللہ گھر دیتا ہے تو  شکرگزاری کا خیال بھی نہیں آتا ہے۔اپنی لڑکی کے  نکاح کے تعلق سے پریشان رہتے ہیں لیکن جیسے اللہ کوئی رشتہ بھیجتا  ہے ،نکاھ ہوجاتا ہے لیکن اس کے بعد شکر کا خیال بھی نہیں آتا ۔

اللہ نے  ہم کو جو صحت عطا کر رکھی ہے اس پر شکر بجا لائیں  ورنہ کسی سرکاری دواخانہ میں  جا کر دیکھیں پھر سمجھ میں  آئیگا کہ  صحت کیا چیز ہے ۔

اپنے ماضی کو کبھی نہ بھولیں   اللہ نے ہماری زندگی میں کتنی بہتری پیدا کی ہے اس پر غور کریں ،ایک زمانہ تھا   کرائے کے مکان میں تھے اب ذاتی مکان میں ہیں ،پہلے ٹینوں کے مکان میں تھے ،اب آر سی سی مکان میں  ہیں،پہلے سائیکل پرتھے ،اب بائیک پر ہیں،پہلے  بائیک پر تھے اب کار میں ہیں،پہلے کسی کے پاس کام کرتے تھے اب ذاتی کاروبار میں  ہیں ،چند ماہ  یا چند سال پہلے  بہت سارے لوگ  اپنی  بیٹی یا بہن کے رشتے کے تعلق سے پریشان رہتے تھے جن کو رات میں نیند بھی نہیں آتی تھی  لیکن آج اللہ نے  ان کی پریشانی دور کردی ۔کیا یہ ساری چیزیں شکر کے قابل نہیں ہیں؟کیا حقیقت میں ہم اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں۔

کتنے لوگ ہیں جو چند ماہ یا چند سالوں پہلے قرض میں  تھے  لیکن آج قرض ادا کر چکے ہیں   کیا وہ  شکر     کے جذبات  محسوس کرتے ہیں؟کیا   آپ کو نہیں لگتا کہ اللہ نے ہم کو سکندر اعظم سے  بھی بڑی دولت نصیب فرمائی ہے،اللہ نے  ہم کو جو بائیک دی ہے وہ سکندر اعظم کے گھوڑے سے  زیادہ تیز رفتار ہے،جو کار ہم کو دی ہے وہ     سکندر اعظم کے گھوڑے سے   20 گناہ تیز رفتاری سے دوڑتی ہے،جس  ہوائی جہاز پر ہم سفر کرتے ہیں   اس کا کوئی جواب ہی نہیں ہے۔جو بریانی      کبھی صرف بادشاہوں  کی نوابوں کی غذا  تھی  لیکن  آج  اللہ فقیروں    کو بھی  کھلا رہا ہے،جو موبائیل  صرف  مالداروں اور تاجروں اور لیڈروں کے پاس ہوتا تھا  آج کچرا صاف کرنے والوں کے پاس بھی ہے۔کیا یہ اللہ کا ہم پر احسان نہیں ہے؟ کیا اس پر  شکر  بجا لانا نہیں ہے ؟ یقینا ہے۔

حضرت براھیم  علیہ السلام کو کچھ نہیں ملا پھر بھی  شکر بجا لایا ،آج ہم کو اللہ  نے اتنا عطا کر رکھا ہے  تو ہمین   اور زیادہ شکر بجا لانے کی ضرورت ہے۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 5 / 5. Vote count: 2

No votes so far! Be the first to rate this post.

2 thoughts on “حضرت ابرہیم علیہ السلام کی سب سے بڑی صفت  شکر گزاری

Leave a Reply