جدید تہذیب کے نقصانات

دنیا کی تاریخ میں جس طرح قحط اب پڑرہے  ہیں جس طرح لوگ بھوکے اب مر رہے  ہیں جس طرح قیمتیں اب چڑھی ہیں کبھی نہیں چڑھیں آخر کیوں؟

پوری تاریخ انسانی میں دنیا کی اکیس تہذیبوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے بھوک سے خودکشی کی ہو۔. اس دور میں غلے کی کثرت کے باوجود خودکشیوں کے ریکارڈ بن رہے ہیں، وجہ یہ ہے کہ اس دور میں  اگریکلچر کی ترقی کے ذریعہ ،دواوں کے ذریعہ  ضرورت سے زیادہ غلہ پیدا کرنے والے،انسانیت کی خدمت کے لیے، غربت کے خاتمے کے لیے، ضرورت مندوں کی ضرورت کے لیے غلہ پیدا نہیں کر رہا بلکہ وہ اپنے نفس کی خواہشات پورا کرنے کے لیے غلہ پیدا کر رہا ہے، اسے بس  پیسے چاہئے، چاہے غلہ پڑا پڑا خراب ہوجائے یا ساری دنیا بھوک سے مر جائے .اس کو کوئی سروکار نہیں ،وہ غلہ  کو رکھ رکھ کر خراب کر دےگا،پھینک دےگا لیکن قیمت کم نہیں کرےگا کسی کے کام نہیں آئیگا. یہ انسان انسان نہیں درندہ ہے۔ اس کی درندگی ، اسے غلے کی ضرورت  بڑھنے پر اسے غلے کی قیمت زیادہ سے زیادہ کرنے پر آمادہ کرتی ہے، یہ لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قیمت کو بڑھاتا ہے .

دنیا کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص بھوکے لوگوں کی قطاریں دیکھ کر خوش ہوا ہو ،  کہ ان چہروں اور اس حالت کی وجہ سے اس کے پیدا کردہ غلے کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ فائدہ  ڈبل ہوجائے گا…. اور اگر اس کے غلے کی قیمت کم ہوجائے  تو اسے دکھ ہو ۔ ایسا بے رحم  انسان پوری تاریخ انسانی میں کسی تہذیب میں کسی مذہب میں کبھی پیدا نہیں ہوا۔ یہ اس جدید سائنس و ٹیکنالوجی کا کمال ہے جو جدید فلسفے سے پیدا ہوئی ہے ۔تاریخ کے ہر دور میں پیداوارکا مقصد صِرف  استعمال ہوتا تھا۔ پیداوار زیادہ ہوتی تو اسے فروخت کر دیا جاتا یا خیرات کر دیا جاتا لیکن پیداوار برائے پیداوار، پیداوار برائے بڑھوتری منافع، اور پیداوار برائے تبادلہ [] انسان کا کبھی یہ مقصد نہیں رہا۔

لوگ صرف غلے کے ڈھیر، غلے کی مقدار، غلہ اگلتی ہوئی زمینوں کی سائنس و ٹیکنالوجی کو دیکھتے ہیں لیکن اس رویے، ، طرز زندگی کو نہیں دیکھتے جو غلے کے اس ڈھیر سے برآمد ہوا۔ یہ رویہ ایسے ہی نہیں برآمد ہوا اس رویے کے بغیر اتنا غلہ کبھی نہیں پیدا ہوسکتا تھا۔ خوشحالی کا یہ ڈھیر حرص و حسد سے برآمد ہوا ہے جو سترہویں صدی کے بعد روشن خیالی، کے ذریعے دنیا کو ملا ہے اور دنیا پر ابھی تک حکومت کر رہا ہے۔

 اس لیے دنیا نے ٹی وی پر یہ نظارہ دیکھا کہ ایتھوپیا، جنوبی کوریا، صومالیہ ، سوڈان، میں قحط کے بعد جب قحط زدہ لوگ اپنے ملک کی سرحدوں سے دوسرے ممالک کی سرحدیں پھلا نگنے لگے تو ان کی عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ پہلے برما اور چند دن پہلے شام کے مہاجرین کی ہجرت کے مناظر دنیا نے دیکھے۔ یہ لوگ سمندروں میں ہی ڈوب مرے اور انسانیت کا کوئی نجاد ت دہندہ انہیں لینے کو تیار نا ہوا۔ پانچ سالہ بچے ا کی سمند ر کنارے پڑی لاش ساری دنیا کے میڈیا پر انسانیت کے عالمی علمبرداروں کا منہ چڑھاتی رہی ۔۔
دنیا کی اکیس تہذیبوں میں نہ کبھی اتنی بیماریاں تھیں ،،نہ اتنے ہسپتال، نہ اتنے ہوٹل، کیفے،، ریستوران، فاسٹ فوڈ  تھے۔دنیا میں جہاں بھی سرمایہ دارانہ معاشرہ ہو گا وہاں بیچنے والے کو صرف اس سے دلچسپی ہوتی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ پیسے ملیں خواہ خریدنے والا اتنے پیسے دینے کے قابل ہے یا نہیں اور خریدنے والے کو صرف اس سے دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم پیسے بلکہ لاگت سے کم پر مال خریدے ۔یہ سول سوسائٹی کی خاصیت ہے کہ وہاں لوگوں کے تعلقات محبت الفت کی بنیاد پر نہیں مفاد کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں ۔جس کے تعلقات کا تانا بانا صرف مفاد، ذاتی سرمایے میں اضافہ ہوتا ہے ۔

اسلام  اسی  مفاد پرستی ،خود غرضی ،کی مذمت بیان کرتاہے۔اسلام خود غرضی  کی نفسیات سے   باہر نکالنا چاہتا ہے،یہ انسانیت کے درد کو سمجھنے میں رہنمائی کرتا ہے،یہ کسی  کے آنکھوں سے  آنسوں  نکلنے نہیں دیتا،یہ کسی کو غم مین دیکھنا نہیں چاہتا،وہ غلہ کو اسٹاک کر کے  قیمتیں بڑھانے سے منع کرتا ہے،وہ جھوٹ بول کر کاروبار کرنے کو حرام قرار دیتا ہے،جھوٹی قسم کھا کر فروخت کرنے کو منع کرتا ہے،سامنے والے کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کو پسند نہیں کرتا،کاروبار میں نرمی کرنے والے کو جنت کی خوشخبری سناتا ہے،قرض دینے والے کو آدھی رقم  صدقہ کرنے  کا اجر دیتا ہے،اگر کوئی کاروبار میں یا کسی بھی معاملے میں قرض لے اور واپس نہ کرے تو  جہنم کی  وارننگ دیتا ہے،

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 0 / 5. Vote count: 0

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply