جب مین نماز میں کھڑا ہوجاوں تو میرا پیر کاٹنا

حضرت عروۃ بن زبیر کی مختصر تاریخ
حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی وفات سے ایک سال پہلے ایک معزز گھرانے میں پید اہوئے،والد محترم ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو نبی نے دنیا میں ہی جنت کی خوش خبری دی تھی۔ان کی والدہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت اسما رضی اللہ عنھا ہیں۔گویا نانا صدیق ہیں،دادی حضرت صفیہ ہیں جو نبی کی پھوپی ہیں،خالہ حضرت عائشہ صدیقہ ہیں جو ام المومنین ہیں۔جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا انتقال ہوا تو قبر میں اتر کر لحد ٹھیک کیا تھا۔
آپ نے بڑے بڑے صحابہ سے علم حاصل کیا ۔یہاں تک کہ آپ کا شمار مدینہ کے ان سات فقہا مین ہونے لگا جن سے لوگ دینی مسائل معلوم کرتے تھے۔حضرت عروۃ نماز کو اپنے دل کا سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک خیال کرتے تھے،نماز خوب دل لگا کر پڑھتے تھے۔حضرت عروۃ بن زبیر نہایت نرم دل مزاج تھے،خوش اخلاق تھے،اور بڑے سخی تھے،مدینہ میں ان کا سب سے بڑا باغ تھا،جس مین میتھے پانی کے چشمے،گھنے سایہ دار ،پھل دار درخت تھے،درختوں کی حفاظت کے لئے سال بھر اس باغ کے اطراف دیوار بناتے تاکہ بچے اور مویشی نقصان نہ پہنچائیں،جب پھل پک کر تیار ہوجاتے تو اپنے باغ کی دیوار مختلف مقامات سے گرا دیتے تاکہ لوگ آسانی سے داخل ہوکر لذیز پھل کھائیں۔اور جتنے چاہیں گھر لے جائیں۔حضرت عروہ جب اپنے باغ میں داخل ہوتے تو یہ آیت پڑھتے ولولا اذ دخلت جنتک قلت ماشااللہ لا قوۃ الا باللہ ۔
حضرت عروۃ بن زبیر علم وعمل کے پیکر تھے موسم گرما میں کثرت سے روزے رکھتے،رات میں قیام اللیل کا اہتمام کرتے،اور ہمیشہ تلاوت قرآن مجید میں مشغول رہتے،رات مین نوافل کا اہتمام کرتے،وفات تک یہی معمول رہا ۔
آپ کی زندگی کا ایک بڑا درد ناک واقعہ ہے،جس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہین۔واقعہ یون ہے کہ ولید بن عبدالملک کے دور حکومت میں آپ کو ایک آزمائش سے گزرنا پڑا،وہ ایسا واقعہ تھا کہ اس جیسے واقعہ مین ایک عظیم ہستی ہی ثابت قدم رہ سکتی تھی۔خلیفۃ المسلمین ولید بن عبد الملک نے بڑی محبت سے انہین دارالخلافہ دمشق مین ملاقات کے لئے دعوت دی،انہوں نے خوشی خوشی دعوت قبول کی اور اپنے بیٹے کو ساتھ لیا،اور دمشق روانہ ہوگئے،جب وہاں پہنچے تو خلیفہ نے والہانہ انداز سے ان کا استقبال کیا اور انہیں شاہی مہمان کا اعزاز دیا گیا۔
ایک مرتبہ حضرت عروہ بن زبیر کا بیٹا گھڑ سواری کے شوق مین شاہی اصطبل مین داخل ہوا،جونہی وہ ایک منہ زور گھوڑے کے قریب گیا اس نے اس زور سے لات مارا جو اس کے سینہ پر لگا،اور جان لیوا ثابت ہوا،پھر غموں سے نڈھال باپ اپنے بیٹے کے قبر پر مٹی ڈال رہے تھے تو اسی دوران ان کے پاوں مین شدید درد ہونے لگا،حالت تشویش ناک حد تک بگڑ گئی ،خلیفۃ المسلمین ولید بن عبد الملک پریشان ہوگئے،فورا شاہی اطبا کو بلایا گیا،علاج پر پوری توجہ دینے کا ھکم دیا ،ایک لمحہ کے لئے بھی غفلت نہ برتی جائے۔معائنہ کے بعد تمام اطبا نے فیصلہ کیا ٹانگ کاٹ دی جائے،ورنہ مریض کی موت کا سبب بن جائیگی۔
جب ٹانگ کاٹنے کے لئے ایک ماہر جراح اپنے اوزار لیکر حاضر ہوئے تو طبیب نے حضرت عروہ بن زبیر سے کہا ہم آپ کو تھوڑی شراب پلا ئیں گے تاکہ ٹانگ کٹنے کی زیادہ تکلیف نہ ہو ،آپ نے یہ سن کر فورا انکار کر دیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا،میں حرام چیز کے ذریعہ سے اپنی عافیت کی امید نہیں رکھ سکتا،طبیب نے کہا پھر تھوڑی نشہ آور چیز پلا دیتے ہیں ورنہ تکلیف ناقابل برداشت ہوگی۔
آپ نے کہا میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا،کہ میرے جسم کا کوئی عضو اس حالت مین کاٹا جائے کہ مجھے اس کا درد نھی نہ ہو،آپ لوگ بغیر کوئی نشہ آور چیز دئے میری ٹانغ کاٹ دیں،اس درد میں ان شااللہ مجھے ثواب ملےگا ۔جب جراح ٹانگ کاٹنے کے لئے تیار ہوا تو بہت سے آدمی حضرت عروہ کے قریب تھے آپ نے پوچھا یہ لوگ کیوں آئے ہیں ،آپ کو بتایا گیا کہ جب ٹانگ کاٹی جائیگی تو آپ کو مضبوطی سے تھام کر رکھنے کے لئے کیوں کہ درد ناقابل برداشت ہوگا،آپ نے کہا ان تمام کو ہٹاو میرے لئے اس تکلیف کے وقت صرف اللہ کی حمد وثنا کافی ہوگی ۔بسم اللہ پڑھ کر اپنا کام شروع کریں۔میری فکر نہ کریں،اللہ میرا مددگار ہے۔جراح نے پہلے قینچی کے ساتھ ٹانگ کا گوشت کاٹا پھر ہڈی پر آری چلایا ادھر عروہ بن زبیر نے بلند آواز سے لاالہ الااللہ اور اللہ اکبر مسلسل پڑھنا شروع کیا،جراح اپنے کام مشغول رہا حضرت عروۃ اپنے ذکر میں مشغول رہے،ٹانگ کٹ گئی اور جب کون بند کرنے کے لئے کھولتے ہوئے تیل میں ٹانگ کو ڈبو یا گیا تو آپ بے ہوش ہوگئے ۔
حضرت عروۃ بن زبیر نے زندگی 71 بہارین دیکھی،جو اللہ کے فضل وکرم سے خیر وبرکت امن وسکون اور نیکی وبھلائی سے بھرپور تھیں۔زندگی بھر تقوے کا تاج پہنے رکھا،جب آخری وقت تھا روزے کی حالت میں تھے،گھر والوں نے افطار کرنے کو کہا لیکن آپ نہ مانے ،آپ کی خواہش تھی کہ میں روزہ حوض کوثر کے پانی سے افطار کروں ،ان کی یہ تمنا پوری ہوگئی انا للہ وانا الیہ راجعون ۔