بچوں کی تربیت میں ماں کا کردار

بچوں کی تربیت میں ماں کا کردار
ایک بچے کی تربیت میں مناسب اور ساز گار ماحول انتہائی ضروری ہے ۔ ایک اچھے ماحول کی فراہمی میں مددگار ماں ہی کا رول ، ماں کی گود کو بچے کی پہلی درس گاہ کہا جاتاہے جو صد فیصد صحیح ہے ، ماں ہی ایک ایسی شخصیت ہے جو بچے کو بہترین تربیت دے سکتی ہے اسکی وجہ کیا ہے ؟
اگر پوچھا جائے تو ہمارا اور ہر کسی کا کہنا یہ ہے کہ بچہ زیادہ سے زیادہ وقت اپنی ماں کے ساتھ گزارتاہے ۔ جس کی وجہ سے وہ اپنی ماں سے زیادہ سے زیادہ چیزیں سیکھتا ہے ۔ تو یہاں پر ماں کی ذمہ داری یہ ہے کہ بچے کو سب سے پہلے زبان کا استعمال سکھائے اور یہ کام وہی کرسکتی ہے وہ اس لئے کہ معاشرے میں ماں کو ممتا کا دوسرا روپ مانا جاتاہے ۔ ماں ہی وہ شخسیت ہے جو محبت کے جذبات کی بھرپور آئینہ دار ہوتی ہے ۔ وہ اپنے اندر ایک ایسی عکاسی قوت رکھتی ہے جس کی روشنی میں اس کا بچہ پروان چڑھتاہے ۔ زندگی کے ہر موڑ پر وہ اس کے سہارے سے اپنے صحیح راستے کو منتخب کرتاہے اور ہم تمام لوگ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ماں کے گود کو بچے کی پہلی درسگا مانا گیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں اور شک ہوگا بھی کیسے ؟ کیونکہ ماں کی اہمیت ایک بچے کی زندگی میں اتنی ہے کہ بچہ جو زبان اپنی ماں سے سیکھتاہے اسکو ماں ہی کا نام دیا گیا ہے ۔ یعنی ”مادری زبان” ۔ اب سوال یہ اٹھتاہے کس طرح ماں کی گود مدرسہ کا حق ادا کرتی ہے ؟ تو ہمارے نزدیک اس کا انحصار ماں کے انتخاب پر منحصر ہے یعنی شادی کے وقت ایک مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے انتخاب میں بڑی یہ احتیاطی سے کام لے کیونکہ یہاں پر اس کا یہ انتخاب اسکے آنے والی زندگی کے گلشن کو سنوارے سکے۔ اسکے گھر میں کھلنے والے پھولوں کی حفاظت کرسکے اور باغ کو تروتازہ رکھے۔ یہاں پر ہم نے گلشن اور پھولوں کا ذکر کیا ہے ۔ ہم نے یہاں پر گلشن سے مراد گھر اور پھولوں سے بچوں کا مطلب لیاہے ۔ کہا جاتاہے کہ عورت سے گھر جنت بھی بنتاہے تو کہیں جہنم کی شکل بھی اختیار کرلیتے ہیں ۔ مرد اپنی ہونے والی بیوی کا انخاب سوچ سمجھ کر لے کیونکہ وہ آئندہ آنے والے دنوں میں اسکے بچوں کی ماں بننے والی ہوتی ہے ۔ اگر ایک مرد بیوی کے انتخاب کے وقت اس میں دین داری ، دیانت داری کو ملحوظ رکھے گا تو ایسی عورتیں ایک اچھی ماں کا رول ادا کرسکتی ہیں ۔ ایک اچھی ماں کا رول ادا کرنے کالئے اس کا تعلیم یافتہ ہونا تو اچھی بات ہے لیکن لازمی نہیں ۔ وہ اس لئے کہ اسکے تعلیم یافتہ ہونے سے بھی زیادہ ضروری ایک ماں کا اعلیٰ اقدار کا حامل ہونا ہے ۔ ایگر ایسا سمجھا جائے کہ ایک تعلیم یافتہ ماں ہی ایک بچے کو اعلیٰ اقدار کا حامل بنا سکتی ہے تو یہ بات درست نہیں ہے وہ اس لئے بہت سارے غیر تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی اعلیٰ اقدار کا حامل ہونا دیکھا گیا ہے ۔ وہ ان اقدار کے سہارے بہت ساری علمی سرگرمیاں بھی انجام دیتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ ہم جب تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کو بہت سارے واقعات ایسے پڑھنے کو ملتے ہیں کہ بہت ساری غیر تعلیم یافتہ عورتوں کے بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ یا پھر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہئوے نظرآتے ہیں ۔ اگر ہم ان تاریخی کتابوں کا بغور مطالعہ کریں تو وہاں پر ایک بچے کی شخصیت سازی اور اسکی ترقی کے پیچھے ماں کی محبت ، شفقت اور محنت کو چھپا ہوا دیکھتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں کئی ایسے محد ثین گزرے ہیں جن کی مائیں تعلیم یافتہ نہیں تھیں ۔ لیکن انکی تڑپ اپنے بچوں کےلئے ایسی تھی کہ جن کی دعاؤں سے انکے بچوں کی کھوئی ہوئی بینائی بھی واپس آجاتی ہے ۔ ماں کی ممتا اور تڑپ ایسی ہے کہ وہ آنے بچے کو ہر حال میں اچھی تعلیم دینے کی کوشش کرتی ہے ۔ اور اپنی گود سے ہی اسکی تربیت کو شروع کردیتی ہے ۔ جس طرح سے وہ اپنے بچہ کی خوراک کا بندوبست وقت پر کرتی ہے اسی طرح وہ اس کی زندگی کے ہر موڑپر اسکی ضرورت کو بھی پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ جس طرح سے بچہ اسکی زندگی میں ہر موڑ پر الگ الگ غذاؤں کا محتاج ہوتا ہے ا سی طرح روحانی تربیت کا بھی محتاج ہوتاہے ۔ اسکی اس کیفیت کو ماں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ اور نہ اسکو کوئی دوسرا پورا کرسکتاہے ۔ الغرض ماں ہی ہے جو اپنے بچے کو ایک اچھی زندگی اور ایک اچھا ماحول عطا کرسکتی ہے ۔ یہاں پر ماں کی ذمہ داری بھی ہے کہ پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے بچے کو پورا پورا وقت دے اور ہرگز بھی غیر ذمہ دار نہ بنے اسکے وقتی تقاضوں کا خیا کرے اور ان تقاضوں کو پورے صبر و تحمل کے ساتھ پورا کرے ۔ اس لئے کہ بچہ کا انحصار مکمل طورپر ماں ہوتی ہے ۔