آو دعائے قنوت کو سمجھیں گے

آو دعائے قنوت کو سمجھیں گے
دعائے قنوت رمضان ہم ہر دن سنتے ہیں اور آمین بھی کہتے ہیں اور وتر کی نماز مین پڑھتے بھی ہیں لیکن بہت سارے لوگوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس دعا میں ہم کیا مانگ رہے ہیں اور کس بات ر آمین کہہ رہے ہیں چلئے آج ہم دعائے قنوت کو سمجھیں گے ان شاءاللہ۔
اللهم اهدنا فيمن هديت
ائے اللہ تو ہم کو ویسے ہدایت دے جیسے تو دوسروں کو ہدایت دیا ہے،یعنی تو ہماری حق کی طرف رہنمائی کر اور اس کے مطابق عمل کی توفیق بھی عطا کر،اس لئے کہ کوئی بھی ہدایت علم اور عمل کے ساتھ ہی گفائدہ مند ہوسکتی ہے،بلا عمل کے ہدایت فائدہ مند نہیں ہوسکتی،اگر علم حاصل کرے لیکن عمل نہ کرے تو اس کا علم اس کے لئے وبال بن جاتا ہے،جب بھی ہدایت مانگیں تو دو چیزوں کا خیال رکھیں ،ہدایت اور عمل کی توفیق مانگیں ،ہم ہر دن فرض نمازوں میں 17مرتبہ ہدایت مانگتے ہیں،ان لوگوں کی طرح جن کو ہدایت دے چکا ہے ،جیسے انبیا کو صحابہ کو شہداء کو،صدیقین کو ،صالحین کو ،ہم اللہ سے یہ مانگ رہے ہیں کہ ہم ابو بکر صدیق کی طرح عمر فارق کی طرح ،عثمان غنی کی طرح ہدایت نصیب فرما۔
وعافنا فيمن عافيت
اور دوسرے جملے میں ہم کہتے ہیں تو ہم کو عافیت دے جیسے دوسروں کو دے چکا ہے۔عافیت دینے کا مطلب محفوظ رکھنا ،ہم کو جسمانی بیماری سے ،دلوں کی بیماریوں سے ،محفوظ رکھ،دلوں کی بیماری سب سے بڑی بیماری ہوتی ہے،دلوں کی بیماریاں خواہشات کی شکل میں یدا ہوتی ہیں،اگر خواہش عمل کی ہو،علم کی ہو،صدقہ خیرات کی ہو،تھجد کی ہو،تو بڑی خوش نصیبی کی بات ہے،لیکن اگر خواہش مال کی ہو ،دولت کی ہو،کھانے پینے کی ہو،دنیا گھومنے کی ہو،بڑی بڑی کاروں کی ہو تو پھر یہ خواہش انسان کو دھیرے دھیرے اطاعت سے دور کردیتی ہیں۔جسمانی بیماریوں سے بھی پناہ مانگی جاتی ہکتنی عجیب عجیب طرح بیماریاں پھیل رہی ہیں ان سب سے پناہ مانگی جاتی ہے،بندہ دعا کرتا ہے کہ حادثوں سے مھفوظ رکھنا،جب بچے اسکول جاتے ہیں کالج جاتے ہیں تو مان باپ کس قدر فکرمند ہوتے ہیں،اگر تاخیر ہوجائے تو کتنے بےچین ہوجاتے ہیں،ان تمام مسائل اور مشکلات سے محفوظ رکھنے کی دعا مانگی جارہی ہے۔اس کے بعد والے جلہ کو دیکھیں
وتولنا فيمن توليت
تو ہم کو وسیے دوست بنا جیسے دوسروں کو بنا رکھا ہے۔تو ہمارا نگران بن جا ،نگرانی د طرح ی ہوتی ہے،ایک خاص ایک عام ،خاص نگرانی اور حفاظت مومنوں کے ساتھ ہوتی ہے،اور عام نگرانی اللہ تعالی ہر ایک کی کرتا ہے،ہم اس سے یہ دعا کرتے ہیں ہماری خاص نگرانی فرما جیسے اس نے صحابہ رکام کی تھی ،اولیاء اللہ کی تھی ،تابعین کی تھی تبع تابعین کی ائمہ کرام کی تھی محدثین کی تھی ۔وہ ہمارا ولی بن جائے ،دوست بن جائے ،اور نیک عمل کی توفیق دے یہی اس دعا میں مانگا جارہا ہے۔اس کے بعد والے جملے کو دیکھیں ۔
وبارك لنا فيما أعطيت
ائے اللہ تو جو کچھ عطا کرے اس میں برکت عطا فرما ۔برکت کا مطلب ہر وہ چیز جو بھلی ہو،جس سے فائدہ ہو،جو نقصان سے خالی ہو،جو کچھ عطا کرے وہ بھلی ہو ،فائدہ مند ہو ،چاہے وہ مال کی شکل میں ہو،اولاد کی شکل میں ہو،علم کی شکل میں ہو،عہدے کی شکل میں ہو،جائداد کی شکل میں ہو،نوکری کی شکل میں ہو،صحت کی شکل میں ہو،خوبصورتی کی شکل میں ہو،عزت کی شکل میں ،چاہے وہ جو بھی دے اس میں برکت عطا کرے،کیوں کہ برکت کے بغیر نعمت کا صحیح فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا ،ہم دیکھ رہے ہیں اللہ کسی کو اولاد تو دیتا ہے لیکن نافرمان دیتا ہے جس سے ماں با پ کو خوشی کے بجائے الٹا ٹینشن ہوتا ہے،زندگی میں چین ختم ہوجاتا ہے،کسی کو مال تو دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ کئی بیامریاں لگا دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ مال سے فائدہ ہی نہیں اٹھا سکتا ۔یا مال کو نافرمانی کے کاموں میں استعمال کرتا ہے،کسی کو علم دیتا ہے لیکن وہ علم اس کو کسی بھی نیک کام میں اخلاص کے ساتھ شریک نہیں کرتا بلکہ ریا کاری میں مبتلا کرتا ہے،یا اس علم کو آزمائش بنا دیتا ہے،علم سے تکبر پیدا کرتا ہے ،دوسروں کو حقیر سمجھنا شروع کرتا ہے ۔ ان تمام آفتوں سے اس دعا میں پناہ مانگی جارہی ہے،اس کے بعد والا جملہ دیکھیں ۔
وقنا شر ما قضيت
ائے اللہ تو جو کچھ ہمارے حق میں فیصلہ کرچکا ہے اس کے شر سے محفوظ رکھ۔اللہ کے فیصلے شر والے نہیں ہوتے ہیں،وہ اگر خیر کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کا احسان ہے اگر شر والا فیصلہ کرتا ہے تو اس کا عدل ہے،کیوں کہ شر کا فیصلہ ہمارے اعمال کی وجہ سے کیا گیا ،ہمارے سارے اعمال اچھے ہوں اور اللہ ہمارے ساتھ برا چاہتا ہو ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ۔اگر ہم نیک ہیں لیکن ہمارے لئے تکلیف دہ معالمے پیش آرہے ہیں تو اس کا مطلب اللہ ہم کو آزما کر ہمارے درجات کو بلند کرنا چاہتا ہے،ہم نے کوئی نیک عمل نہیں کیا جس سے ہمارے درجات بلند ہوں تو اللہ آزمائش کے ذریعہ درجات کو بلند کرتا ہے،بہر حال کونسا فیصلہ ہمارے ھق میں بہتر ہے ہم نہیں جاتے ،اس لئے ہم کہتے کہ ائے اللہ ہمارے لئے اگر ظاہری طور پر بھی کوئی فیصلہ ایسے کرے جس سے تکلیف ہوتو اس کو خیر میں بدل دے۔اس کے بعد والا جملہ دیکھیں ۔
إنك تقضي ولا يقضى عليك
ہم اس کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تو ہی فیصلہ کرنے والا ہے تجھ پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا ۔اللہ کا حکم ہر جگہ چلےگا ،اس کے مقابلے میں کسی کا حکم نہیں چل سکتا ،بندہ جو بھی کرتا ہے اس کے بارے میں وچھا جائیگا لیکن اللہ جو بھی کرتا ہے اس کے بارے میں پوچھا نہیں جاسکتا ۔وہ اگر کو اندھا بنا دے ،وہ اگر کسی کو فقیر بنا دے ،وہ اگر کسی کو لنگڑا بنا دے تو اس سے پوچھا نہیں جاسکتا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ۔وہ جو بھی کرتا ہے انصاف اسی میں ہوتا ہے جس کی حکمت ہم کو ہر بار سمجھ میں نہیں آتی ہے۔اس کے بعد والا جملہ دیکھیں ۔
إنه لا يذل من واليت
وہ اگر کسی کو دوست بنا لے تو کوئی اس کو ذلیل نہیں کیا جاسکتا ۔اگر آپ اچھے کام کریں گے دنیا لاکھ آپ کو برا بھلا کہے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے،دنیا برا کہتے کہتے خود ہی تھک جائیگی اور ایک دن آپ کی اچھائی مان جائیگی،بس آپ جو کر رہے ہیں وہ حقیقت میں اچھا ہو،بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کوئی کام آپ کو بہت اچھا لگتا ہے لیکن حقیقت میں اچھا نہیں ہوتا ہے،ایسے کام کرنے سے آپ اچھے نہیں کہلا سکتے۔آپ خیر والا کام کریں ،دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا کریں،اخلاص کے ساتھ کریں ،بہتر سے بہتر کریں ،خوب دل لگا کر کریں ،پھر دنیا والے کچھ بھی کہیں پرواہ نہ کریں بس کرتے جائیں،کیوں کہ جہاں بھی کام ہوتا ہے وہاں چار لوگ تنقید کرنے والے ،کیڑے نکالنے والے ،ریاکاری کا الزام لگانے والے ملیں گے آپ ان کی پرواہ نہ کریں ۔کیوں کہ اللہ آپ کے ساتھ ہے وہ آپ کا کچھ بگاڑ نہیں پائیں گے۔اس کے بعد والا جملہ دیکھیں .
ولا يعز من عاديت
اس جملہ میں ہم کہہ رہے ہیں ائے اللہ اگر تو کسی کا دشمن بن جائے یعنی اگر کوئی برے کاموں سے تیری دشمنی مول لے تو پھر کبھی عزت پا نہیں سکتا ۔تیری نافرمانی کرنے وال عزت والا ہوہی نہیں سکتا ہے،آج اگر کسی کے ظلم سے بچنے کے لئے عزت کی جارہی ہے ،کسی کے عہدے کی وجہ سے عزت کی جارہی ہے ،تو وہ اس کو عزت نہ سمجھے ،کیوں کہ جیسے وہ کمزور پڑھ لوگ اس کا بدلہ لیکر رہتے ہیں،جیسے اس کی کرسی ختم ہوجاتی ہے لوگ اس کو ذلیل بنا دیں گے۔اللہ کی نافرمانی کے ذریعہ عزت حاصل نہیں ہوسکتی ،اگر عزت ہو رہی ہے بہت ہی مختصر مدت کے لئے ہوتی ہے پھر اس کے بعد ذلت کا سامنا کرنا پڑےگا۔اس دعا کا آخری جملہ دیکھیں
تباركت ربنا وتعاليت
آخر میں ہم اس کی تعریف کرتے ہیں ائے اللہ تو ہی بابرکت ہے تو ہی سربلند ہے۔جتنی برکتیں ہوسکتی ہیں ان سب کا سرچشمہ تو ہی ہے،تیری ذات اتنی بلند ہے کہ اس کی بلندی کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ۔یہ آسمان ،یہ زمین ،یہ سورج یہ چاند یہ سمندر یہ پہاڑ اس کی ادنی سی مخلوق ہیں،اتنی بڑی بڑی مخلوق کو اس نے بڑی آسانی سے پیدا کیا ،اس نے یہ ساری چیزیں ہماری خدمت کے لئے پیدا کیا ،ہم کتنی نافرمانیاں کرتے ہیں پھر بھی ہو ہمیں برابر نعمتیں دیتا ہے،وہ ہمیں موقعہ دیتا ہے،ہماری ہر سانس اس کے احسان کا نتجہ ہے، اس نے ہم کو ایمان والا بنایا ،رمضان میں روزے رکھنے والا بنایا ،اگر وہ چاہتا تو ہم کو ایمان سے محروم کر سکتا تھا،پھر جہنم کی کسی گڑھے میں دھکیل سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ،ایمان دے کر احسان کیا ،کیا یہ اس کی بڑائی نہیں ہے۔یقینا ہے،بس ہم کو یہ ساری چیزیں تصور میں لاتے ہوئے دعا کریں پھر دیکھیں دعا میں کتنا مزہ آئیگا۔اور بار بار دعا کرنے کو جی چاہیگا۔سامعین آپ نے صرف ایک دعا کو سمجھنے کی کوشش کی تو ذرا دیکھیں کتنا مزہ آرہا ہے اگر آپ سارے دین کو سمجھ کر عمل کریں تو ؟آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ کیا ہوگا۔