اعلی تعلیم کے لئے گوشت اور بریانی کی قربانی دیں

اعلی تعلیم کے لئے گوشت اور بریانی کی قربانی دیں
ایک زمانہ تھا دنیا والوں کو علم ہم نے دیا،دنیا مساوات سے ناواقف تھی مساوات ہم نے دیا،،حکمرانی کے لئے خلفا ہم نے دیا،فوج کے لئے کمانڈر ہم نے دئے،حکمران بنے تو عدل کیا،فاتح بنے تو ملک بسایا،فلسفی ہم نے دئے،ہماری قوت ایمان تھی،ہماری عزت دین تھی،ہمارا توکل رب پر تھا،ہمارا قانون قرآن تھا،ہمارے امام نبی تھے،اب ہمیں پلٹ کر اپنے دور کو دہرانا ہے۔
ہم ایسے بنیں لوگ دیکھیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو کسی پر ظلم نہیں کرتے،کس قدر ایمانداری سے کام کرتے ہیں،اگر نوکر ہو تو کتنی ایمان داری سے کام نبھاتے ہیں،اگر تاجر ہوں تو کتنا صاف معاملہ رکھتے ہیں،اگر زبان دیں کیسے پابندی کرتے ہیں۔ان کے پاس دولت ہی سب کچھ نہیں،ان کے انداز نرالے ان کی باتیں نرالی وہ مجبور ہوجائیں سوچنے پر کہ یہ لوگ کیا ہیں؟
آج مسلمان کسی بھی میدان میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ان کو تعلیم حاصل کرنا ہوگا،جو تعلیم یافتہ رہتا ہے بس وہی آج کے زمانے میں قابل توجہ ہوتا ہے،اور اس کی قدر کی جاتی ہے،آج ہماری نسل جس تعلیم کو حاصل کرنے جاتی ہے اس تعلیم میں صرف اپنے پیٹ کے خندق کو بھرنا سکھایا جاتا ہے،کسی غریب کے بھوکے پیٹ کا کوئی حل نہیں ہوتا،جہاں صرف اپنی بلڈنگ سنوارنے کی بات ہوتی ہے،جہاں ڈاکٹر اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ زیادہ کمائے،جہاں صرف زبان کے الفاظ سکھائے جاتے ہیں لیکن تربیت نہیں کی جاتی ہے،جبکہ اسکولوں کالجوں ،یونیورسٹیوں کا اصل مقصد تعلیم سے بڑھ کر تربیت ہونا چائے، ایک معاشرے کی تربیت میں ،نسل نو کی رہنمائی میں استاذ کا بہت بڑا رول ہوتا ہے،آج ہماری سوسائٹی میں اچھے اساتذہ کی واقعی کمی ہے اس کی ذمہ دار خود سوسائٹی ہے،آج ایک معمولی تعمیری کام کرنے والے میستری کی مزدوری روزانہ 5 سو سے لیکر سات سو تک ہے ،جس کا مطلب ہے وہ ماہانہ 15 ہزار سے لیکر 20 ہزار تک کماتا ہے،لیکن ہمارا ٹیچر جو ہمارے بچوں کی تعمیر کرتا ہے بڑی مشکل سے 5 تا 10 ہزار کماتا ہے،ایک معمولی انگوٹہ چھاپ مزدور جو ایک میستری کے ہاتھ میں اینٹ اور سمنٹ دیتا ہے روزانہ 400 کماتا ہے جس کا مطلب وہ ماہانہ 12000 کماتا ہے لیکن ہمارے اسکول ٹیچروں کی تنخواہ 3 ہزر سے 7 ہزار تک ہوتی ہے پھر کیسے امید کریں کہ اس میدان میں قابل لوگ آئیں گے ،قوم کی تربیت کریں گے،اور ہمارا اسکول مینیجمنٹ اشتہار پر لاکھوں ،بلڈنگ ڈیکوریشن پر لاکھوں خرچ کرتا ہے لیکن اساتذہ کی تنخواہ بڑھانے ہزار بار سوچتا ہے،اگر Management ظاہری ڈیکوریشن Decoration کے بجائے تعلیم پر توجہ دین اشتہار ات کیے سارے اخراجات بچ جائیں گے ان پیسوں کو یا ٹیچروں کی تنخواہ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے یا فیس کم کرتے ہوئے تعلیم کو سستی بنائی جاسکتی ہے،اس میں والدین بھی ذمہ دار ہیں وہ اپنے بچوں کو عمدہ اور مہنگے کپڑے ،کھلونے،کھانے دینے تیار ہیں لیکن اچھی فیس دینے تیار نہیں،جب تک آفیس سے نوٹس نہیں آتی تب تک فیس بھرنے نہیں جاتے۔
آج ہمیں گوشت اور بریانی کی قربانی دینی پڑےگی ،عمدہ کھانے کی قربانی دے کر اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دینا ہوگا ۔آج ہمارے گھروں میں رسومات جاری ہیں ،فنکشن جاری ہیں،گھر میں نیا فرج لایا جارہا ہے ،نئی گاڑی خریدی جارہی ہے ،شادیوں میں بڑے بڑے اخراجات کئے جارہے ہیں،مہنگے لبا س کریدے جارہے ہیں،دعوتوں میں زیورات نظر آرہے ہیں ،لیکن جب تعلیم کا مسئلہ آتا ہے تو دنیا کے سب سے بڑے مسکین وغریب بن جاتے ہیں۔جتنا ہوسکے سستی تعلیم کو اختیار کرتے ہیں۔سستے اسکول ، سستے نوٹس ،سستے قلم ،سستی بیاگ سستے جوتے ،پوری بچت تعلیم میں ہی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔عید کی شاپنگ ،شادی بیاہ کی شاپنگ ،برت ڈے کی شاپنگ میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔کھانے پینے مین کوئی کمی نہ ہو،رہنے سہنے مین کوئی کمی نہ ہو لیکن تعلیم کے مسئلہ میں بہت کمزور ہیں۔
مسلمانوں کی آدھی دولت گوشت میں گئ تو آدھی دولت شادی اور رسومات میں گئ اب تعلیم کے لئے کہاں رقم بچی سچی حقیقت بتائی ہے عزیز دوست نورالدین نے اللہ آپ سے دین کا زیادہ سے زیادہ کام لے آمین
السلام عليكم
بہت ہی عمدہ پیغام قوم کی گیور لوگوں کے نام،
بہت اچہی بات آپ نے لکہی ہے اللہ تعالی ہترین بدلہ عطا فرما۶ے آمین
بارک اللہ فیکم ڈاکٹر صاحب
اللہ قبول کرے اور قوم سمجھ جائے آمین یارب
آمین یارب اللہ کرے قوم سمبھل جائے ،اگر مسلمان سمبھل جائیں تو ترقی پکی ہے ان شاءاللہ۔