استاذ بادشاہ تو نہیں لیکن بادشاہ گر ہوتا ہے

استاذ بادشاہ تو نہیں لیکن بادشاہ گر ہوتا ہے
5 سپٹمبر کو ہندوستان میں یوم اساتذہ منایا جاتا ہے یہ دن در اصل ہندوستان کے پہلے نائب صدر اور دوسرے صدر جمہوریہ ڈاکٹر سراواپلی رادھا کرشنن کے یوم پیدائش پر منایا جاتا ہے جو کہ بنیادی طور پر ایک استاد تھے۔اسی پس منظر میں ہم آج اساتذہ کا جائزہ لینے جارہے ہیں۔استاذ معاشرہ کی ریڈ کی ہڈی ہوتا ہے،معاشرے کے نوجوانوں کے نازک ذہن اس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں وہ جس طرح تربیت کرےگا اس کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے،استاذ کا مثبت رویہ ،طلبہ کے ساتھ اعتدال پسندی ،میانہ روی اور دوستانہ سلوک ،ان کی فکری ،علمی اور ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے اورنکھارنے میں بے حد مددگار ثابت ہوتاہے۔استاذ کو طلبہ پر نہایت مہربان اور ان کے ساتھ نرمی اور رحم کا سلوک کرنا چاہیے،استاذ طلبہ کو اپنی اولاد کی طرح پیارا سمجھے، ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے۔ ان کی تربیت،علم،اخلاق،اور اچھی عادات اپنانے میں ان پراس طرح محنت کرے جس طرح اپنی اولاد کے لئے کرتا ہے ۔استاذ کا احترام اسی میں ہے کہ وہ عام لوگوں کی طرح جاہلانہ انداز نہ اپنائے،طلبہ کی عزت میں اس کی عزت ہے،اگر طلبہ کو ہمیشہ بے عزت کرتا رہے تو ایک دن طلبہ بھی اپنی بےعزتی کا بدلہ لین گے،اور طلبہ کو چاہئے کہ جس طرح اپنے والد کی عزت کرتے ہیں تھینک اسی طرح استاذ کی بھی عزت کریں،استاذ اگر ڈاٹیں تو اس میں ہماری ہی بھلائی ہوتی ہے،استاذ جو بھی ہوم ورک دیتے ہیں اس میں ہماری ہی بھلائی مقصود ہوتی ہے،جدید نسل کو استاذ کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا ،استاذ کی قدر کرنا ہوگا،استاذ کی قدر ،اھترام کرنے سے علم میں پختگی پیدا ہوتی ہے،استاذ کا جس قدر احترام کیا جائیگا،اس کی باتیں ذہن پر نقش ہوتی جاتی ہیں اگر طالب علم کے ذہن میں استاذ نفرت ہوگی ،یا بغض ہوگا تو وہ کچھ بھی پڑھائے طالب علم کے ذہن پر نقش نہیں ہوسکتا ہے،
استاذ کی حقیقت میں جو ذمہ داری ہے ،معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑھ رہا ہے وہ ادا نہٰن کر رہے ہیں۔ایک کامیاب استاذ وہ جو طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ان کی تریت پر بھی کڑی نظر رکھے۔ان کے اخلاق ،ان کے عادات ،ان کا طور طریقہ ،ان کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھے،استاذ خود غرض بالکل نہ رہے،وہ صرف اپنی تنخواہ کے مطابق کام نہ کرے،بلکہ اس سے بڑھ کر طلبہ کو فائدہ پہنچانے ولا بنے۔طلبہ اپنی زندگی کا سب سے اہم اور اکٹیو ٹائم اساتذہ کے پاس گزارتے ہیں،اساتذہ جو کہیں سرتسلیم خم کرتے ہیں،استاذ کو ایک نمونے کے طور پر دیکھتے ہیں،لہذا اساتذہ کا رول طلبہ کی زندگی میں انتہائی اہم ہوتا ہے۔اساتذہ کو یہ مان کر چلنا ہے تربیت کے بغیر تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں،تعلیمی اداروں کا مقصد کمرشیل بن چکا ہے،اسکولس اور کالجس کا مقصد قوم کی خدمت نہیں ہے،بلکہ صرف نفع کمانا ہے جس کے لئے مختلف طریقہ اختیار کئے جاتے ہیں ۔اور اساتذہ کا بھی مقصد قوم وملت کی خدمت نہیں بلکہ بس روزی روٹی کا ذریعہ بن چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسکول کے اساتذہ تنخواہ کی کمی کی وجہ سے ٹوشن پر توجہ دیتے ہیں،کالج کے اساتذہ ،طلبہ پر کنٹرول نہ پاکر ان کو اپنی بےراہ روی پر چھوڑ دیتے ہیں،یونیورسٹی کےاساتذہ تعلیم پر توجہ دینے کے بجائے پالٹکس کے شکار رہتے ہیں،جو ان کی آوبھگت کرے،خدمت کرے،تحفہ تحائف پیش کرے اس کی ترقی کی راہیں آسان بناتے ہیں،طلبہ کی رہنمائی سے بڑھ کر ان کو سیمنار میں اپنے مقالے پیش کرنے میں ،اپنے آرٹکلس کو اخبار اور میگزنس میں شائع کرنے میں،اپنے پرانے نئے آرٹیکلس کو جمع کر کے کتابی شکل میں شائع کرنے میں مصروف دیکھا جاتا ہے،طلبہ پر توجہ دینے کے بجائے اپنی شخصیت کے نشونما میں لگ جاتے ہیں،یونیورسٹی کے پروفیسرس کو صاحب کتاب کہلانے کا اتنا شوق ہوتا ہے کہ اپنی ساری توجہ ،ساری صلاحیت ،دلچسپی طلبہ کے بجائے اپنے ریسرچ پر صرف کرتے ہیں،طلبہ اگر رجوع بھی کریں تو روکھے انداز میں رہنمائی کر کے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ الا ماشااللہ ۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے اساتذہ کو صحیح معنوں مین حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔