بیٹے نے کورونا سے متاثرہ 80 سالہ ماں کو کھیت میں چھوڑ دیا

بیٹے نے کورونا سے متاثرہ 80 سالہ ماں کو کھیت میں چھوڑ دیا
آج صبح اخبار پڑھتے ہوئے میری نظر اس سرخی پر رک گئی جس میں کہا جارہا تھا کہ بیٹے نے کورونا سے متاثر 80 سالہ ماں کو کھیت میں چھوڑ دیا ۔آپ اندازہ لگائیں کہ انسانیت کس قدر مردہ ہوچکی ہے ۔ایک ایسی ماں جس کی عمر 80 سال کی ہے جس کے 4 بیٹے ہیں ،جو چل نہیں سکتی ،اپنے کام خود نہیں کر سکتی ، لیکن جب کورونا متاثر ہوگئی تو بچوں نے کھیت میں ایک پرانے فلیکس کے بیانر سے سایہ بنایا ، جہاں ان کی ماں نہ بیٹھ سکتی ہے نہ سو سکتی ہے اس کے لئے کھانا اور دوائی رکھ چھوڑ آئے ۔لوگوں نے دیکھ پولس کو شکایت کی ،پولس نے کونسلنگ کی تب بھی ماننے تیار نہیں ہوئے ،پولس نے ماں کے ساتھ جنگل میں ایک رات بسر کرنے مجبور کیا تب بھی ماننے تیار نہیں ہوئے ،آخر کار سب لوگوں کی جانب سے لعن طعن ہوئی تو چھوٹا بیٹا بڑی مشکل سے راضی ہوا۔
یقینا اگر کسی کے پاس اسلام کی دولت نہ ہوتو اکثر لوگون کی انسانیت مر جاتی ہے ۔یہ اسلام ہی کی تعلیمات ہیں کہ انسانوں میں ہمدردی کی لہر جگاتی ہیں۔آج ضرورت ہے اس بات کی کہ اسلامی تعلیمات کو دنیا کے سامنے آسان انداز سے بیان کریں۔ماں باپ کے حقوق ،بیوی بچوں کے حقوق ،پڑوسیوں کے حقوق پر پامفلیٹ مقامی زبان میں پرنٹ کر کے مختلف شاپنگ مال کے کاونٹر س پر رکھنا ہوگا ۔جہاں آنے والے کسٹمرس دیکھ کر پڑھنے اٹھا لیں گے ۔انسانی ہمدردی کی تعلیمات کو مقامی زبانوں میں منتقل کرنا وقت کا اہم کام ہے ۔
اللہ تعالی نے اپنی عبادت کے ساتھ کسی کا حکم شریک نہیں کیا صرف ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کو ذکر کیا ۔اپنی عبادت کے ساتھ مان باپ کے ساتھ حسن سلوک اور اپنے شکر کے ساتھ ماں باپ کا شکر ادا کر نے کا حکم دیا ۔ان اشکر لی ولوالدیک ،الی المصیر ،اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے ۔
بخاری کی روایت کے مطابق ماں باپ کی نافرمانی گناہ کبیرہ ہے ۔ہم نے یہ دیکھا ہے کہ جو بھی بندہ نیک وصالح ہوتا ہے وہ ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور جو برا ہوتا ہے وہ ہمیشہ تکلیف دیتا ہے ۔
بخاری مسلم کی روایت ہے ایک صحابی نے پوچھا ائے اللہ کے رسول میرے حسن سلوک کے سب سے پہلے حقدار کون ہیں کہا تماری ماں ،پھر سوال کیا جواب وہی ملا ،تین بار بھی نبی نے ماں کا ہی ذکر کیا چوتھی مرتبہ باپ کا ذکر کیا .
جب گھر میں داخل ہوں تو ماں باپ کو سلام کریں ،جب گھر سے نکلیں تو سلام کر کے نکلیں ۔ان کے سامنے ان کی قربانیوں کا ذکر کریں ،ان کے بچپن اور جوانی کے حالات پوچھتے رہیں،ان کارناموں کو سنتے رہیں ،ان سے تجربہ لیتے رہیں۔جب ان سے بات کریں تو اتنی زور سے نہ کریں کہ ان کو پریشانی ہو ،اور نہ اتنا آہستہ کریں کہ ان کو سننے میں دقت ہو۔بلکہ درمیانی آواز میں بات کریں۔
وہ جب بھی آواز دیں فورا جواب دیں ۔ان کے پاس فوارا آجائیں۔ا ن کی ضرورتوں کو اپنے سے پہلے ادا کریں ۔ چھوتے چھوٹے تحفہ دیتے رہیں،ان کی پسند کی کھانے کی چیزیں لاتے رہیں،گھر میں کچھ اچھا پکانا ہوتو ان کی رائے ضرور لیں۔یا ان کو اطلاع دیں۔اگر کہیں سفر میں جانا ہو تو سب سے پہلے ماں باپ کو اطلاع دیں ،اور جب واپس آئیں تو سب سے پہلے ماں باپ سے ملیں ،سفر سے واپسی میں ماں باپ کے لئے کچھ بھی نئی چیز لاکر تحفہ دیں۔
ماں باپ کی کمائی کو بے دردی سے خرچ نہ کریں۔ان کی موجودگی میں ان کی کمائی ہوئی چیزوں کو فروخت نہ کریں بلکہ ان کی حفاظت کریں۔حالات کیسے بھی ناموافق رہیں ان کے ساتھ سختی سے بات نہ کریں ، نہ ان کو گالی دینے کی حماقت کریں ۔ان کے کھانے ،پینے سونے جاگنے کے اوقات کا خیال رکھیں ۔جب سورہے ہوں تو ڈسٹرب نہ کریں ۔جب وہ بات کر رہے ہون تو درمیان میں بات نہ کاٹیں ،ان کی پوری بات سنیں ،بسا اوقات ایسے ہوتا ہے کہ ان کی باتیں ان کے مشورے حالات حاضرہ کے مطابق نہیں ہوتے ،وہ پرانے زمانے کی ہی باتیں کرتے ہیں ایسے وقت بھی ان کی باتوں کو نہ کاٹیں بلکہ صبر سے سنتے رہیں ،اور ان سے کہیں کہ آپ کی باتوں پر غور کیا جائیگا ،اور جو مناسب ہوگا اس کو کریں گے ان شاءاللہ ۔ان کے آگے آگے نہ چلیں بلکہ پیچھے چلیں،کہیں داخل ہونا ہوتو پہلے ان کو داخل ہونے دیں ۔ان کے نام سے نہ پکاریں ،ان کے سامنے پیر پھیلا کر نہ بیٹھیں ۔ان کے حق میں ہمیشہ دعائیں دیتے رہیں۔اگر ان کی کوئی بات پسند نہ آئے تو درمیان میں ہی چھوڑ کر نہ جائیں ۔پوری بات سنیں چاہے پسند آئے نہ آئے ۔
اگر ماں باپ بہت ضعیف ہوں تو ان کے سامنے آپس میں نہ لڑیں۔ان کی خدمت سے جی نہ چرائیں۔ان کی زندگی میں وراثت کے لئے جھگڑا نہ کریں ۔
ماں باپ کے انتقال کے بعد ان کے حق میں ہر دن رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا کی دعا کرتے رہیں ۔ماں باپ کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کریں ۔ان کے دوستوں کی عزت کریں۔ان کے حق میں ہر دن کچھ نہ کچھ صدقہ کرتے رہیں،آپ جب بھی کسی کو کچھ دیں تو ماں باپ کے نام پر دیں ،اگر اللہ نے طاقت دی ہے تو کسی مسجد کی زمین کی خریداری میں حصہ لیں،یا مسجد کی تعمیر میں حصہ لیں،یا والدیں کے نام پر بورویل کھودیں۔
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ماں باپ کے انتقال کے بعد ان کو مکمل بھول جاتے ہیں،ہم ہر دن اپنے پیٹ کی فکر کرتے ہیں لیکن ماں باپ کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہوگا کبھی نہیں سوچتے ۔
فرمابردار اولاد وہی ہے جو زندگی میں بھی ساتھ رہے اور مرنے کے بعد بھی صدقہ جاریہ بن کر رہے ۔