بچوں کے نفسیات یہ ہیں کہ وہ اس  شخص سے محبت کرتے ہیں ، جو ان کے ساتھ محبت و سادگی سے پیش آئے، اور ان کے ساتھ اس طرح رہے گویا کہ وہ خود بھی بچہ ہی ہے۔بچے اس شخص سے نفرت کرتےہیں جو غصہ والا،ترش رو اور بےصبرا ہو۔ نیزبچے محترم اورسنجیدہ انسان کو پسند کرتے ہیں،نبی کریم ﷺ  بچوں  کی فطرت سے بخوبی واقف تھے،لہٰذا آپ ﷺ بچوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ فرماتے تھے جیسی ان کی پسند ہوتی تھی، لیکن آپ ﷺ انکے ساتھ اپنی سادگی،ان سے مذاق دل لگی،اور ان کی شفقت کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق اوران کی شخصیت سنوارنے اورانہیں کامیاب انسان بنانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں:

(ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے سجدہ فرمایا تو حسن اور حسین آپ کی پیٹ  پر چڑ گئے، جب آپ نے اپنے سر کو اٹھایا توان دونوں کو آہستہ سے پیچھے سے پکڑا اور محبت سے اتار دیا، جب آپ نے نماز ختم فرمائی تو ان دونوں کو اپنے گود میں لے لیا )۔

آپ بخوبی جانتے ہیں کہ بچہ، واجبات، حقوق، اصول ومبادی اور اخلاق ومعانی کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، یہ باتیں اسے اس کی زندگی کے کئی سالوں میں قدم قدم پر حاصل ہوتی ہے، وہ شخص غلطی پر ہے جو بچوں کے ساتھ بڑوں جیسا سلوک کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ بچہ اصول وضوابط کو جانے، لیکن یہ ممکن نہیں ہے  لوگوں کا بچوں سے مطالبہ ہے کہ وہ پرسکون، وقار وچین کے ساتھ اور خاموش رہے، حالانکہ ان باتوں پر بچے عمل نہیں کرسکتے۔

کبھی ایسا بھی ہوا کہ پیارے نبی نے  چھوٹے بچے کو  گود میں لیا، اور اس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا، تو آپ نے پانی منگوایا اور اپنے کپڑوں پر چھڑک دیا، اور دھویا نہیں، آپ ﷺ نے  صرف لڑکوں کو ہی اپنے گود میں نہیں اٹھایا بلکہ لڑکیوں کو بھی آپ پیار سے گودمیں لیتے تھے۔

حضرت ابوموسی اشعری ؓ فرماتے ہیں:

(مجھے بیٹا ہوا، تو میں نے اسے نبی کریم ﷺ کے پاس لایا، تو آپ نے اس کا نام ابراھیم رکھا، پھر کھجورچباکراسے چٹایا اور اس کے لئے برکت کی دعا فرمائی)

آپ ﷺ بچوں کے ساتھ راستے میں بھی کھیلا کرتے تھے، یعلی بن مرہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھانے پر نکلا، تو حسین بن علی راستے میں کھیل رہے تھے، نبی ﷺ لوگوں کے درمیان سے جلدی آگے بڑھے، پھر اپنے ہاتھوں کو بڑھایا، تاکہ حسین کو لیں، لیکن حسین ادھر ادھر بھاگنے لگے،آپ ﷺ ان کا پیچھا کرتے اور انہیں ہنساتے، آپ نے اسامہ بن زید اور حسن بن علی کو لیا اور اپنے گود میں دونوں کو بٹھایا، پھر ان کو گلے سے لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا : «اللهمّ ارحمهما فإني أرحمهما» ([4]).

 (اے اللہ ان دونوں پر رحم فرما کیونکہ میں ان پر شفقت کرتا ہوں)

اور ایک حدیث میں ہے: آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ کے کاندھوں پر امامہ بنت ابوالعاص تھیں، پھر آپ نے نماز پڑھی، جب رکوع کیا تو امامہ کو نیچے اتاردیا، پھر جب رکوع سے اٹھے تو امامہ کو اٹھالیا۔

جب آپ ﷺ نماز کے دوران کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اپنی نماز کو ہلکی کردیتے تھے، تاکہ بچے کی ماں اپنی نماز ختم کرے اور بچے کو لے، یا اس کے رونے کو خاموش کرے اور بچے کی ضرورت کو پوری کرے، آپ ﷺ کا ارشادہے: «

(میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز کو طویل کروں، (لیکن جب) بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز کو مختصر کردیتا ہوں، اس کراہت سے کہ بچے کی ماں کو مشقت میں نہ ڈالوں۔)

آپ ﷺ بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے اور ان کے خصوصی معاملات کے سلسلے میں ان سے گفتگو فرمایا کرتے تھے، اگرچہ کے بچوں کے معاملات معمولی ہوتے تھے، حضرت انس بیان کرتے ہیں : «

(نبی کریم ﷺ لوگوں میں سے سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے مالک تھےِ میرا  ایک بھائی تھا، جسے ابوعمیر کہا جاتا تھا،  جب وہ آتا تو آپ فرماتے تھے: اے ابوعمیر تمہاری نغیر تو بخیر ہے۔(نغیرایک چڑیا تھی جس سے ابوعمیر کھیلا کرتے تھے)۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 0 / 5. Vote count: 0

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply