ہر آدمی اپنی ذمہ داری خود تلاش کرلے۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ن ہے

ن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ، وَهُوَ مَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَهُوَ مَسْؤولٌ عَنْهُمْ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ، وَهِيَ مَسْؤولَةٌ عَنْهُمْ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْؤولٌ عَنْهُ، أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ) [متفق عليه]
حضرت عبد اللہ بن عمر   کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا،تم میں ہر ایک  آدمی زمہ دار ہے اور اپنی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائیگا،ایک لیڈر لوگوں کا ذمہ دار ہے وہ اپنے  رعایا  کے بارے میں پوچھا جائیگا،ایک  عام آدمی اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اس  سے ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائیگا،ایک عورت اپنے گھر کی ذمہ دار اس کی ذمہ  داری کے بارے میں پوچھا جائیگا،ایک نوکر اپنے  مالک کے مال کا ذمہ دار ہے اس سے پوچھا جائیگا،تم کا ہر آدمی کسی نہ طرح ذمہ دار ہے اور ہر ذمہ داری کے  بارے میں سوال ہوگا ۔

اگر آج ہم اس حدیث پر عمل کریں تو معاشرہ کے   99 مسائل حل ہوسکتے ہیں۔آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ جس کی جو ذمہ داری ہے   وہ خود ادا نہیں کرتا ہے بلکہ اس کو یاد دلانا پڑتا ہے۔

ایک لیڈر کی ذمہداری  کو عوام یاد دلاتی ہے  اگر وہ خود اپنی ذمہ داری کو سمجھے   ،تلاش کرے اور ادا کرے تو     مرے دم تک لیڈر رہ سکتا ہے ،لیکن بے چارے لیڈر حضرات ایسے نہیں کرتے ہیں ،الا ماشاءاللہ ،لیکن لیڈر حضرات یہ  نہ سمجھیں  کہ بچ جائیں گے ،اگر آپ ذمہ داری  کو نہیں سمجھیں گے  ادا نہیں کریں گے تو عوام ذمہ داری یاد دلائیگی اگر پھر بھی  احساس  بے دار نہیں ہوا تو پھر عوام کان پکڑ کر ہٹا دے گی ۔

یہ بات صرف لیڈروں تک ہی نہیں ہے بلکہ ہر فیلڈ کا ذمہ دار ہے اس کو اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگا ۔اگر کسی کا ادارہ کا ذمہ دار ہے ،کسی مسجد کا متولی ہے،کسی کمپنی کا  ذمہ دار ہے،کسی اسکول کا پرنسپل ہے،کسی کالج کا پرسپل ہے ،کسی یونیرسٹی کا  ڈین ہو  وائس چانسلر ہو،اگر وہ ذمہ داری کو سمجھے ،اد ا کرے تو کامیاب ہے۔

حدیث کا  دوسرا ٹکڑا ہے  آدمی  اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اس کی ذمہ دار ی کا سوال ہوگا ۔اب آپ  دیکھیں  ایک آدمی اپنے گھر کا ذمہ دار ایک باپ کی شکل میں ہوسکتا ہے شوہر کی شکل میں  ہوسکتا ہے  ایک بیٹے کی شکل میں ہوسکتا ہے وہ بھائی کی  شکل مین ہوسکتا ہے ،وہ کسی بھی شکل میں ہو ذمہداری کو ادا کرنا ہوگا۔ہمارے سماج کا  ایک بڑا حصہ بحیثیت  شوہر ہونے کی ذمہ داری   نبھانے میں ناکام ہے۔ایک شوہر ہونے کے ناطے بیوی  کے مسائل  سے لاپرواہ ہوتے ہیں،بچے بیمار ہوں فورا لے جائیں گے لیکن اگر بیمار ہوتو تال متول کرتے ہیں،ان کے درد کو دکھ کو خود سے سمجھنے کی کوشش کبھی نہیں کرتے ہیں،جب تک کہ ان کو یاد نہ دلایا جائے ۔

حدیث کا تیسرا ٹکڑا ،ایک عورت  اپنے گھر کی ذمہ دار ہے اس کے بارے میں پوچھا جائیگا،عورت اپنے گھر کی ذمہ دار  کبھی بیوی کی شکل میں ،کبھی  ماں کی شکل میں  ،کبھی بیٹی کی شکل میں کبھی بہو شکل میں ہوسکتی ہے۔اس کو ہر حالت میں اپنی ذمہ داری کو کود تلاش کرنا ہوگا اور ادا کرنا ہوگا۔

اگر ماں کی شکل میں ہو اپنے بچوں    کی تربیت کی زمہ داری ہے،وہ جس طرح اپنے  بچوں کی جسمانی  پرورش کرتی ہے ویسے ہی اخلاقی تربیت بھی کرے،اگر اس کے بچے شادی شدہ ہیں    بیٹوں کے ساتھ ساتھ بہو کو بھی  اپنی بیٹی سمجھے،اس کی بھی تربیت جاری رکھے،اس کو اپنائیت کا ااحساس دلائے،اس کو بھی اپنے گھر کا ممبر کا مقام دے،مشوروں میں شامل کرے۔اگر بیٹی کی شکل میں ہے تو اپنے ماں باپ ،بھائی بہن   کی عزت احترام ،خدمت کرتی  رہے،اپنے   بھاوجوں کو   پریشان نہ کرے۔اپنے بھابی کی ہر چھوٹی غلطی اپنی امی کو نہ بتائے  بلکہ کود اصلاح کرے۔

حدیث کا آخری ٹکڑا ۔ایک غلام اپنے مالک  کے مال کا ذمہ دار ہے۔آج کل  غلامی کا  دور ختم ہوچکا ہے اس لئے ہم اس کا معنی ایک نوکر سے کرتے ہیں ،ایک یملوئی ،اپنے  مالک کے  کاموں کا ذمہ دار ہے ،وہ   آدمی چاہے کا  کمپنی کا ملازم ،ہو چاہے اسکول کا ملازم ہو،چاہے کالج  ویونیورسٹی کا ملاز م ہو،چاہے پروئیوٹ ملازم ہو،یا سرکاری ملازم ہو،اس کو اپنی ذمہداری  کو یاد دلانے سے ادا کرنا ہوگا ۔اگر کوئی بھی ملازم  اپنی ذمہ داری کو دوسروں کے یاد دلانے سے پہلے ادا کرے تو پھر وہ ملازم  لوگوں کی نظروں میں بھی کامیاب ہے اور اللہ کی نظروں میں بھی کامیاب ہے۔

یہ حدیث  ہمارے سماج  کو بدل سکتی ہے،کیوں کہ مسائل  ذمہ داریون کو اد انہ کرنے سے ہی پیدا ہورہے ہیں،اگر ہر آدمی   بغیر کیمرے کی بھی  برابر کام کرے ،بغیر نگران  کے بھی برابر کام کرے تو  سماج بہت جلد ترقی کے منزلیں طئے کرےگا ان شاءاللہ ۔

اسلام کی ایک  ایک تعلیم میں سماج کے حل پوشیدہ ہیں آج سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس سے پتہ چلا کہ اسلامی تعلیمات    دنیا والوں کے لئے  مسائل پیدا نہیں کرتے بلکہ  پیدا کئے گئے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ان تعلیمات پر عمل  کرنے سے مسائل پیدا نہیں ہون گے بلکہ حل ہوتے جائین گے۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 0 / 5. Vote count: 0

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply