کیا موجودہ رہن یا گروی رکھنے کے طریقے صحیح ہیں؟

کیا موجودہ رہن یا گروی رکھنے کے طریقے صحیح ہیں؟
ہمارے معاشرے میں رہن کا رواج بہت زیادہ ہے لیکن جس کو لوگ رہن کہتے ہیں حقیقت میں وہ رہن نہیں بلکہ سراسر سود ہے۔رہن کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو قرضہ کی ضرورت پڑے تو وہ کسی سے قرضہ مانگتا ہے قرض دینے والا اس سے کہتا ہے میں تمہیں قرض تو دونگا لیکن کیا گیارنٹی ہے کہ تم قرضہ کو واپس لوٹاوگے ،اس لئے تم میرے پاس کوئی چیز رہن کے طور پر رکھ دو اگر تم لوٹا نہ سکو تو تمہاری رہن میں رکھی چیز کو فروخت کر کے قرضہ کی رقم لی جائیگی اور بقیہ رقم واپس کر دی جائیگی ۔اور رہن میں رکھی ہوئی چیز کو بالکل استعمال نہیں کیا جاسکتا ،اگر استعمال کرے تو بازار میں جو کرایہ چل رہا ہے وہ کرایا چیز والے کو دےگا۔جیسے رہن میں کوئی گھر رکھے تو اسکو استعمال نہیں کیا جاسکتا اگر استعمال کیا جائے تو مارکیٹ میں جو کرایا چلتا ہے وہ کرایا گھر والے کو دینا ہوگا ۔اسی کو رہن کہا جاتا ہے۔لیکن آج ایسے نہین ہوتا ہے،قرض دینے والا گھر کو استعمال کرتا ہے اور کرایا بھی نہیں دیتا ،گویا وہ اپنے قرضہ کے بدلے میں گھر سے فائدہ اٹھا اتا ہے اسلام کی نظر میں اس کو رہن نہیں بلکہ سود کہا جاتا ہے۔کیو ں کہ قرض دینے والا قرض کے بدلے میں جو بھی فائدہ اٹھاتا ہے اس کو سود کہا جاتا ہے۔ایسے موقعہ پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ میرے قرض دینے سے اگر مجھے گھر یا کوئی بھی چیز استعمال کرنے نہ دیا جائے تو پھر میرے قرض دینے کا فائدہ ہی کیا رہا ؟اس سے کہا جائیگا ،تمہیں قرض کے بدلے میں اجر ملےگا،اجر کے علاوہ جو بھی طلب کروگے وہ سود ہوگا۔آج ہماری پوری سوسائیٹی اس سود میں ملوث ہوچکی ہے۔مثال کے طور پر کوئی کسی کو 5 لاکھ روپئے قرض دیتا ہے وہ اس کے بدلے میں اس کا مکان یا دکان رہن میں رکھ لیتا ہے جب تک وہ قرض واپس نہیں لوٹاتا اس دکان یا مکان کو مفت میں استعمال کرتا رہتا ہے ،یا برائے نام مختصر کرایا دیتا ہے ،یہ سراسر سود ہے۔اس سے بچنا ضروری ہے۔اگر کوئی یوں کہے کہ جس طرح آدمی گھر دے کر کرایا حاصل کر تاہے یا دکان دے کرایا حاصل کرتا ہے تو میں پیسے دے کر پیسوں کا کرایا حاصل کر ہا ہوں تو اس سے کہا جائیگا کہ چیزوں کو کرایا پر دے کر کرایا حاصل کر سکتے ہو لیکن مال کو دے کر مال کا کرایا لینا جائز نہیں ہے اسی کو سود کہا جاتا ہے۔آج کل لوگ قرض لینے کے لئے سودی معاملات میں پھنس جاتے ہیں،اگر انہیں قرضہ مل جائے تو سودی معا ملات سے بچا جاسکتا ہے۔اس لئے
اگر کوئی شخص قرض مانگے تو اس کو قرض دینا مستحب ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ نے قرض دے کر کسی کی مدد کرنے میں دنیا وآخرت کے بہترین بدلہ کی ترغیب دی ہے،رسول اللہ نے فرمایا اگر کوئی آدمی کسی قرض دیتا ہے تو جتنی رقم قرض کے طور پر دیتا ہے اس کی آدھی رقم اللہ کی راہ میں صدقہ کا اجر ملتا ہے۔ اسی طرح ہمارے نبی ﷺکا فرمان ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرضہ دیتا ہے تو ایک بار صدقہ کا اجر ملتا ہے۔ (نسائی ، ابن ماجہ)
لیکن قرض دینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دنیاوی فائدہ کے لئے کوئی شرط نہ لگائے (مثلاً ایک لاکھ کے بدلے ایک لاکھ بیس ہزار روپئے کی ادائیگی کی شرط لگانا جائز نہیں)،
قرض لینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن کوشش کرکے وقت پر قرض کی ادائیگی کرے۔ اگر متعین وقت پر قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے قرض دینے والے سے قرض کی ادائیگی کی تاریخ سے مزید مہلت مانگے۔ مہلت دینے پر قرض دینے والے کو اللہ تعالیٰ اجرعظیم عطا فرمائے گا۔ لیکن جو حضرات قرض کی ادائیگی پر قدرت رکھنے کے باوجود قرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں، ان کے لئے نبی اکرم ﷺ کے ارشادات میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، حتی کہ آپ ﷺ ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع فرمادیتے تھے جس پر قرض ہو یہاں تک کہ اس کے قرض کو ادا کردیا جائے۔آج قرضہ دینے سے لوگ انکار کرتے ہیں اس لئے جو لیتا وہ کبھی بھی وقت پر نہیں لوٹاتا ہے ہمیشہ قرض دینے والے کو پریشانی ہی اٹھانی پڑتی ہے، قرض لینے والا اپنے سارے کام انجام دیتا ہے اپنی کمائی سے اپنے سارے اخراجات پورے کرتا ہے لیکن قرض کو واپس لوٹانے کی فکر نہیں کرتا ۔وعدے کے مطابق پورا قرض کوئی بھی نہیں لوٹاتا اس لئے ہر آدمی قرض دینے سے ڈرتا ہے،وہ سمجھتا ہے کہ ہم قرض دے کر سامنے والے کی پریشانی کو دور کرتے ہیں لیکن قرض لیکر پریشانی سے چھٹکارا پانے والا اب قرض دینے والے کو پریشان کرتا ہے،اسی لئے قرضہ نہیں دیا جارہا ہے،آج قرض کے معاملے میں مالداروں کے مقابلے غریبوں کی زیادہ غلطی ہے کیوں کہ واپس لوٹانے کی فکر نہیں کرتے ہیں ،الا ماشاللہ ۔حالانکہ اچھا معاشرہ ایک دوسرے کے کام آنے سے ہی وجود میں آسکتا ہے۔ اسی لئے شریعت اسلامیہ نے ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ترغیب دی ہے، جیسا کہ ارشاد نبوی ہے کہ جس شخص نے کسی مسلمان کی کوئی بھی دنیاوی پریشانی دور کی ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ جس نے کسی پریشان حال آدمی کے لئے آسانی کا سامان فراہم کیا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیاو آخرت میں سہولت کا فیصلہ فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندہ کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔ (مسلم) آج ہمارے معاشرے سے سود جیسی بلا سے بچانے کے لئے ایک دوسرے تعاون کرنا ضروری ہے ،لئے ہوئے قرض کو واپس کرنے کی دن رات فکر کرنے دعا کرنے اور اسباب اختیار کرنے کی ضرورت ہے اللہ خود ہی اسباب پیدا کر دےگا ان شا اللہ ۔
Masha Allah Allah Aise kamo me allah Aur Taraqi Atta farmaye aur din Ka Kaam Har akisi Se oene Ki Toufeeq De Ameen