کیا بینک میں جمع سودی رقم سے کسی غریب مسلم کی مدد کی جاسکتی ہے؟

کیا بینک میں جمع سودی رقم سے کسی غریب مسلم کی مدد کی جاسکتی ہے؟
سامعین لااک ڈاون کے ان دنوں میں بے شمار لوگ پریشان ہیں ،اور ایسے حالات میں لوگ مختلف سوالات بھی کرتے رہتے ہیں۔ان ہی میں سے ایک سوال فضیلۃ الشیخ حافظ سید حسین عمری مدنی حفظہ اللہ سے کیا گیا کہ کیا ہم ان پریشانیوں کے دنوں میں بینک میں جمع شدہ سود سے کسی غریب ومسکین مدد کر سکتے ہیں؟
سوال بہت ہی اہم ہے اور مناسب عالم وفاضل سے ہی کیا گیا ہے ۔تحقیقات کی دنیا میں فضیلۃ الشیخ حافظ سید حسین عمری مدنی حفظہ اللہ کا نام نیا نہیں ہے ،بلکہ آپ کی باریکی بینی کے بڑے بڑے علماء بھی معترف ہیں ۔آپ نے اس سلسلہ میں مکمل تحقیق کی ۔عرب علماء کے فتاوے رجوع کئے جیسے
1فتاوی اللجنۃ الدائمۃ
2 مجلۃ مجمع الفقہ الاسلامی العدد الثالث احکام النقود
3 مجموع فتاوی بن باز کتاب البیوع باب الربا والصرف وغیرہ
مسلسل لاک ڈاون کی وجہ سے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اور معاشی طور پر کمزور بہت سارے مسلمان پریشان ہیں ،ایسی نازک صورت حال میں غیر ارادی طور پر بینکوں مین جمع سودی رقم کے ذریعہ کیا ہم ان کی مدد کرسکتے ہیں؟
جواب
اولا :مسلمان پر فرض ہے کہ وہ جائز طریقے سے حاصل کردہ مال کی حفاظت جائز ذرائع ہی سے کرے۔
ثانیا : اگر بے اختیاری ،اضطراری اور مجبوری کی حالت میں سودی بینک میں کھاتا کھولنا یا جاری رکھنا پڑا تو اس سے سودی رقم حاصل کرنے کی قطعا نیت نہیں رکھنی چاہئے ۔
ثالثا :سودی رقم ھاصل کرنے کی نیت کے بغیر کسی کے کھاتے میں اگر بے اختیار سودی مال جمع ہوجائے تو ایسی صورت میں سب سے پہلے توبہ واستغفار کریں اور اس سودی مال کو مسلمان فقرا ومساکین کی مدد یا دیگر رفاہی امور میں خرچ کریں ۔واللہ اعلم بالصواب ۔
یقینا یہ فتوی کچھ لوگوں کو عجیب لگ سکتا ہے لیکن فضیلۃ الشیخ حافظ سید حسین عمری مدنی حفظہ اللہ تحقیقی کام بہت ذمہ داری کے ساتھ کرتے ہیں ،کسی معاملہ کو دھڑلے سے ہاں یا نہ میں جواب نہیں دیتے بلکہ اس کے لئے تحقیق کرتے ہیں پھر نپا تلا جواب دیتے ہیں۔اس معاملے میں بھی کافی تحقیق کے بعد ہی جواب دیا ہے ۔یقینا ہر آدمی کو دلائل کی روشنی میں قبول اور رد کا پورا حق ہے ۔کسی کے پاس قبول ہوسکتا ہے اور کسی کے پاس نہیں لیکن دلیل ہوتو ہی بات کرنا چاہئے ورنہ بغیر دلیل کے تبصرے کرنا کوئی سمجھداری کی بات نہیں ہے ۔
یقینا ہم جن حالات سے گز رہے ہیں بڑے سنگین ہیں ،ان حالات میں ہم کو اپنے جائز و حلال مال سے مدد کرنے کی کوشش کرنا چاہئے ۔اپنے حلال مال سے مدد کرتے ہوئے اگر سودی رقم بھی بینک میں پڑی ہوئی ہے ،اور ظاہر بات ہے اس کو ہم استعمال نہیں کر سکتے ،اس لئے ان سخت حالات میں بغیر ثواب کی نیت سے مسکین ومجبور مسلمانوں کی مدد کا جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ہر چیز حالات پر مبنی ہوتی ہے ۔ ایک ہی فتوی ہمیشہ اور ہر حال میں نہین چلتا ،حالات کی نزاکت سے اس میں تبدیلی آسکتی ہے ۔اس طرح کے فتاوے کو دیکھنے کے بعد شیطان مزید دروازے کھول سکتا ہے ،اپنا حلال مال رکھتے ہوئے ہمیشہ اسی طرح سودی مال سے مدد کرنے کی ترغیب دلا سکتا ہے ۔ہر چھوٹی بڑی چیز کے لئے سودی مال ہی استعمال کرنے کا خیال پیدا کر سکتا ہے ۔اس لئے سمجھداری بہت ضروری ہے ۔اکثر لوگ حیلے بہانے سے اپنے مال کو بچانا ہی چاہتے ہیں ،اور یہ انسان کی فطرت بھی ہے کہ وہ مال سے شدید محبت کرتا ہے ۔اس مال کی محبت میں ضرورت مند نہ ہونے کے باوجود بھی اپنی مسکینی ظاہر کرتے ہوئے مال لے سکتا ہے ،اور وہ خود اس کا ذمہ دار ہے ۔اور لوگ اپنے پاس حلال مال کی ایک بڑی مقدار رکھنے کے باوجود وہ صرف سودی رقم سے ہی مدد کرنا چاہتے ہیں اپنے حلال مال کو خرچ کرنا نہیں چاہتے تو یہ بھی خطرناک ہے ۔کیوں کہ وہ سودی رقم سے مدد کرنے کے بعد کسی اجر کا تو مستحق نہیں ہوگا ۔ وہ مطمئن ہوگا کہ میں نے فلاں فلاں کی مدد کی لیکن اس کی نیکی کی جھولی خالی ہی رہیگی ۔اس لئے صرف مدد کرنا کسی کا پیٹ بھر دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اپنی آخرت کو بھی بنانے کی فکر ہونا چاہئے ۔اور ثواب و اجر ،حلال مال خرچ کرنے سے ہی ملے گا ۔
ہماری باتوں کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ سودی مال سے مدد کرتے ہوئے اپنے حلال مال کو روک کر نہ رکھیں ۔ہمیشہ ذہن میں حلال مال کو ہی خرچ کرنا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ اگر حالات زیادہ ہی سنگین ہوں تو ساتھ میں سودی رقم سے بھی مدد کریں اور توبہ واستغفار بھی کریں ۔