کیا آپ ایک اچھے پڑوسی بن سکتے ہیں؟

پڑوسی کے حقوق
قارئین آج ہم آپ کو پڑوسی کے حقوق کی تعلق سے بہت ہی پیاری حدیث بتانے جارہے ہیں ۔
عن ابی ذر يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَةً فَأَكْثِرْ مَاءَهَا وَتَعَاهَدْ جِيرَانَكَ))[ رواه مسلم]
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ائے ابو ذر جب تم سالن یا شوربا بناو تو تھوڑا پانی زیادہ ڈالو اور اپنے پڑوسی کا کیال کرو ۔مسلم ۔
پڑوسی کئی طرح کے ہوتے ہیں
1 گھر کے پڑوسی
2کام کے پڑوسی
3سفر کے پڑوسی
یہ سارے پڑوسی اس میں شامل ہیں ۔اسلام نے پڑوسی کا بہت خیال کیا ہے ۔
یاد رکھیں اگر کوئی پڑوسی ستائے تو وہ ایمان کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے ۔جیسا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : (( وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ قِيلَ وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَهُ))[رواه البخاري ]
بخاری کی روایت ہے آپ نے فرمایا اللہ کی قسم وہ ایمان والا ہے ایمان والا نہیں ہے ایمان والا نہیں ہے تیم مرتبہ کہا ،صحابہ نے پوچھا کو ن ائے اللہ کے رسول ؟کہا جس کا پروسی اس کے تکلیف سے محفوظ نہیں ہے۔
اور ایک حدیث میں جنت سے محرومی کی علامت قرار دیا گیا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قَالَ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُرواه مسلم
وہ آدمی جنت میں نہیں جائیگا جس کا پڑوسی اس کے تکلیف سے محفوظ نہ ہو۔مسلم
یہ بات طئے شدہ ہے کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا ضرور پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرےگا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ متفق عليه ]
آپ نے فرمایا جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ پروسی کے ساتھ برا سلوک نہ کرے ۔
پڑوسی کا اس قدر خیال رکھا کہ بخاری کی روایت کے مطابق اگر پڑوسی کو آپ کے دیوار پر لکڑی رکھنے یا میخ مارنے کی ضرورت ہو تو اجازت دینا ہوگا کہا ۔
یہاں تک خیال رکھا ہے کہ اگر آپ کو گھر بیچنا ہو تو پہلے پڑوسی کو پوچھے ،اگر پڑوسی بازار میں چلنے والی قیمت سے خریدنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اسی کا حق ہے ،اگر قیمت کم کرنا چاہتا ہے تو پھر اختیار ہے کہ کسی کو بھی بیچے ۔
اسلام کی نظر میں پڑوسی امین ہے معین ہے محافظ بھی ہے ،بھوک کو مٹانے والا ہے ۔رہنما بھی ہے ،غمخوار بھی ہے۔ناصح بھی ہے
رسول اللہ کے زمانے میں ایک آدمی اپنے پڑوسی کے ستانے کی شکایت ایک مرتبہ دو مرتبہ لایا تو آپ نے صبر کی نصحیت کی ۔لیکن جب تیسری بار پھر شکایت کی تو آپ نے مشورہ دیا کہ اپنے سامان کو گھر کے باہر ڈال دو اور بیتھ جاو ۔چنانچہ اس نے ویسے ہی کیا ،جب لوگ وہاں سے گزرتے تو پوچھتے اور یہ اپنے پروسی کے ستانے کی شکایت کرتا ،لوگ اس ظالم پروسی کو بد دعا دیتے ،جب ظالم پڑوسی نے دیکھا کہ سب لوگ لعن طعن کر رہے ہیں تو اس نے فورا اپنے پڑوسی سے معافی مانگی ۔اور کہا کہ اندر گھر میں رہو اب میں کبھی نہیں ستاوں گا ۔ابو داود ۔
ایک عورت کے بارے میں شکایت آئی کہ فلا ں عورت نمازی ہے ، روزے دار ہے صدقہ وخیرات کرتی ہے لیکن اپنے پروسن کو زبان سے تکلیف دیتی ہے تو آپ نے کہا وہ جہنمی ہے ۔بیہقی ۔
1پڑوسی کے خوشیوں میں بھی شامل ہونا اور غم میں بھی
۔2خوشیوں میں جیسے شرکت کرتے ہیں ویسے تکلیف پر برداشت بھی کرنا
3تحفہ دینا
4،عزت کی حفاظت کرنا
5،ضروریات کو پوری کرنا
6قرض مانگے تو ادا کرنا
7ظالم ہو یا مظلوم ہو مدد کرنا ،اگر وہ سکے تو اپنے ساتھ مسجد کو لانا جلسوں میں لانا ،ان کے بارے میں حسن ظن رکھنا ہوگا