کیا آپ ایک اچھے مینیجر بننا چاہتے ہیں؟

غلطی کا اعتراف کرنا سیکھیں
سامعین ہمارے معاشرہ میں عام طور پر ملازمین پیشہ لوگ ،یا کسی بھی پیشہ سے جڑے لوگ غلطی کرتے ہیں تو سیدھے اپنی غلطی کا اقرار کرنے کے بجائے تاویلات کرتے ہین یا بہانے تلاش کرتے ہیں اور کسی بھی طرح اپنی غلطی کو ظلطی ماننے تیار نہیں ہوتے بلکہ سحیح قرار دینے میں زور لگاتے ہیں ،نتیجہ میں اپنی ملازمت کھو دیتے ہیں یا اگر تاجر ہیں تو اپنے کسٹمر کھو دیتے ہیں۔اگر آدمی غلطی ہونے پر سیدھے طور پر مان لے تو اس غلطی کا ازالہ ہوسکتا ہے اور نقصان سے بچا جاسکتا ہے ۔
۔ سمجھدار لوگوں کا کہنا ہے: ’’گاہک کی نظر میں جو غلطی ایک انچ کے برابر ہے آپ اسے ایک فٹ کے برابر ماننے کے لیے تیار رہیے۔ ظاہر ہے یہ آپ کے کاروبار کے لیےبہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ایک دانشور نے لکھا ہے: ’’غلطی کا اعتراف کر لینا تمام ترقیوں کا دروازہ ہے۔ مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی غلطی کو سمجھ لینے کے بعد اس کا اعتراف کر لے۔ وہ اسے اپنی عزت کا سوال بنا لیتا ہے۔ اس سے خرابی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ بالآخر وہ وقت آ جاتا ہے جب اسے بہت کچھ گنوا دینے کے بعد غلطی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ مگر اب اس کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا۔‘‘
بہادری یہ نہیں کہ آپ اپنی غلطی پر اڑ جائیں۔ بلکہ بہادری یہ ہے کہ آپ اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور دوبارہ اس غلطی کو نہ دہرائیں ۔
جب غلطی ہو جائے تو بڑے پن کا مظاہرہ کیجیے۔ فورا غلطی کو تسلیم کیجیے۔ غصے کی آگ کو بجھا دیجیے۔ معذرت کا ایک لفظ آپ کو ہزار عزتیں، ہزار فائدے اور ہزار راحتیں بخشے گا۔ غلطی تو انسان سے ہوتی ہی رہتی ہے، مگر اچھی غلطی وہ ہوگی جس کا ادراک، اعتراف اور پھر ازالہ کر لیا جائے۔
لیکن اس راستے کو اپنانے کے بجائے لوگ لنگڑے عذر اور تاویلات کا راستہ اپناتے ہیں،جیسے ایک ٹیچر ہمیشہ اسکول کو لیٹ آتا ہے کبھی ٹرافک کا بہانہ ،کبھی کسی کام کا بہانہ،کبھی کسی کے بیمار ہونے کا بہانہ ،کبھی بارش کا بہانہ ،کبھی کچھ کبھی کچھ لیکن اپنی غلطی کو مانتے ہوئے اصلاح نہیں کرتا،عام ملازموں کا بھی یہی حال ہوتا ہے،اپنی غلطی کا اقرار ہی نہیں کرتے ہیں،جس کی وجہ سے نہ وہ اپنی اصلاح کر سکتے ہیں،نہ ہی اپنا مقام بڑھا سکتے ہیں،نہ ہی ترقی کر سکتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں کچھ مالکین ،مینیجرس ،ذمہ دار ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی معقول عذر کو سننے تیار نہیں رہتے ہیں وہ صرف اپنے ملازمین کی غلطی کو تسلیم کرانے پر اڑے ہوئے رہتے ہیں،جیسے ایک ملازم کو ایک کام سونپ دیا ،اس کام کو کرنے کی اس نے پوری کوشش کی ،لیکن اس کے لئے معقول رکاوٹیں تھیں جن کی وجہ سے وہ کر نہیں پاتا ،اب یہ مینیجر صاحب ،ڈائیرکٹر صاحب ،ان معقول وجوہات کو سننا ہی نہیں چاہتے بلکہ ملازم کی غلطی ثابت کرنے اڑ جاتے ہیں اور یہ کہتے یہ کام آپ نے نہیں کیا ختم یہ آپ کی غلطی ہے ،یہ آپ کی کوتاہی ہے،کام کے نہ ہونے کی وجوہات کو سننے تیار ہی نہیں رہتے ہیں،یہ ایک طرح کی نفسانی بیماری ہے جو سامنے والے کو غلط قرار دے کر اپنی بڑھائی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
کچھ مینیجر س اور مالکین ایسے ہوتے ہیں جو کبھی بھی اپنے ملازمین کی خوبیوں کو تسلیم نہیں کرتے ہیں ،وہ کتنا بھی اچھا کام کریں ان کی تعریف نہیں کرتے ہیں ،نہ ان کی ہمت افزائی کرتے ہیں،ایسے مینیجرس بھی ناکام ہوتے ہیں،ان کو چاہئے کہ ملازمین کی خوبیوں کا اعتراف کریں اور اظہار بھی کریں تاکہ وہ مستقبل میں اور اچھا کام کر سکیں ،کچھ مینیجرس کو ملازمین کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھی تنخواہ کاٹنے کی بہت خواہش ہوتی ہے ۔وہ بس تنخواہ کاٹنے کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ایسے لوگ بھی ناکام رہتے ہیں۔
کچھ مینجرس ،مالکین اور ذمہ دار ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ملازمین کی غلطیوں پر اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں،بار بار ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں،اگر ان کے موافق کا م نظر نہ آئے تو فورا نکال کر دوسروں کو ملازم رکھ لیتے ہیں،پھر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے وہ ہمیشہ ملازمیں کی تلا ش ہی میں رہتے ہیں،ان کو چاہئے کہ ملازم کہاں غلطی کر رہے ہیں سمجھائیں ،اور وہ ملازمین سے کیا چاہتے ہیں کس طرح کا کام چاہتے ہیں ،کس طرح کی کوالیٹی چاہتے ہیں بار بار سمجھائیں۔کوئی بھی ملازم 100 فیصد ہمارے مطابق نہین ہوتا ہے اس کو ہمارے کام کے قابل بنانا پرھتا ہے۔اس کے سامنے مکمل طور پر وضاحت ہو کہ ہم کس طرح کا کام چاہتے ہین،اور کیسے چاہتے ہیں۔ملازمین کی تربیت بھی ضروری ہے۔
الغرض یہاں ہر ایک کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے اور اصلاح کی ضرورت ہے اسی مین ترقی ہے اسی میں سکون ہے،اسی میں سب کی بھلائی ہے۔