کن چیزوں پر زکات نہیں ہے؟

اگر سونا  7۔5 سے کم ہوتو زکات نہیں ہے ،چاندی 52۔5  سے کم ہوتو زکات نہیں ہے،اگر کرنسی ساڑے باون  چاندی  کی رقم سے کم ہوں تو زکات نہیں ہے۔

ہیرے جواہرات  ،موتی ،قیمتی  پتھر،اگر استعمال کے لئے ہیں تو ان پر زکات نہیں ہے ،لیکن اگر کاروبار کے لئے ہیں تو زکات نکالنا ہوگا،اسی طرح رہائشی مکانات ہیں ،چاہے کتنا بھی بڑا بنگلہ ہو  آپ کے رہنے کے لئے ہوتو زکات نہیں ہے،اگر آپ نے  مکان کو کرائے پر دیا ہے ،سال بھر وہ کرایہ  کھا پی کر بچتا ہے اور نصاب تک پہنچے تو زکات ہے۔

آپ کے پاس استعمال کے کئی طرح کی گاڑیاں ہیں  چاہے  وہ ٹو ولر ہو،4ولر ہو ،ان پر  زکات نہیں ہے،ہاں اگر آپ ان کو کرائے پر دیتے ہیں ،جو کرایا آتا ہے اس کو استعمال کرنے کے بعد  نصاب کے برابر بچ جاتا ہے تو زکات ہے۔

آپ کے پاس کارخانہ ہے اس مین استعمال کی جانے والی مشنری پر زکات نہیں ہے، ہاں اس کی آمدنی   پر زکات ہے اگر وہ نصاب تک پہنچ جائے تو۔اسی طرح کاروبار کرنے کے تمام وسائل جیسے  جیسے ٹرانسپورٹ ،بورویل مشین،کراکری ،ٹنٹ سروس،ٹراکٹر ،ٹیکسی،آٹو،لاری،ان پر زکات نہیں ہے  ،ہاں ان کی  آمدنی پر زکات ہے،اور اگر یہی چیزیں فروخت کے لئے ہیں تو بھی زکات  دینا  پڑےگا۔

اسی طرح آپ نے مکان بنانے کی غرض سے زمین لی ہے اس پر زکات نہیں ہے۔لیکن  جب بیچنے کا ارادہ کریں تو زکات شروع ہوگی۔کھیت پر کوئی زکات نہیں ہے،کھیت سے آنے والی فصل پر زکات ہے۔

اسی طرح آپ نے کسی کو قرضہ دیا ہے   جو وقت پر واپس لوٹا نہیں سکتا ہے ،یعنی جب آپ مانگیں نہین دے سکتا ہے یا نہیں دیتا ہے تو اس پر زکات نہیں ہے،جب  وہ  مال آئے تو زکات ہے۔ہاں  اگر جب بھی مانگیں تو فورا واپس کر دیتا ہے تو اس پر زکات دینا ہوگا۔

زکات کا مال  جس شہر کے لوگ  نکالتے ہیں   سب سے پہلے   اسی شہر کے غریب اور مسکین لوگ حق دار ہیں،بخاری کی روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا ان اللہ افترض علیھم  الصدقۃ توخذ من اغنیاءھم وترد الی فقرائھم  ان کے ملدارون سے زکات لی جائیگی اور ان کے غریبوں میں تقسیم کی جائیگی۔لیکن بڑی بد قسمتی ہے کہ جس شہر کے  لوگ زکات کی بڑی بڑی رقم نکالتے ہیں اسی  شہر کے غریب لوگ محروم  رہتے ہیں،کیوں کہ وہ  ظاہر نہیں کرتے ہیں،منہ کھول کر مانگتے نہیں ہیں نتیجہ میں محروم رہتے ہیں۔یہ بے چارے ہمارے مالدار   بھائی   مساجد میں کوئی دور سے آتا ہے اور اعلان کرتا ہے   اس کو دیتے ہیں۔اس مالدار بھائی کا پڑوسی حقدار ہوتا ہے  بستی والے بیواہ عورتین حقدار ہوتی ہیں لیکن ان کو  نہیں ملتا  کیوں کہ وہ مانگتے نہیں ہیں۔ایسے موقعہ پر جو اصل   حقدار ہوتے ہیں  وہ اظہار نہیں کرتے ہیں  اس لئے محروم ہوجاتے ہیں۔ہماری ذمہ داری ہے ایسے خوددار  لوگوں کا خیال رکھیں۔ان کو ڈھونڈ کر نکالیں۔مانگنے والا  کہیں بھی مانگ لیتا ہے اس کو مل ہی جاتا ہے ۔بے چارے جو خودار ہوتے ہیں  انہیں نہ کوئی سمجھتا ہے،نہ انہیں دیتا ہے۔

اور ہاں مصلحت کے پیش نظر انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ زکوٰۃ منتقل کر سکتا ہے۔ اگر انسان کے مستحق رشتہ دار کسی دوسرے شہر میں رہتے ہوں، تو ان کی طرف زکوٰۃ بھیجنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح انسان کے اپنے شہر کے لوگوں کی مالی حالت بہت اچھی ہو اس لئے وہ کسی دوسرے ایسے شہر میں زکوٰۃ کی رقم بھیج دے جہاں کے باشندے زیادہ فقیر ہوں تو بھی اس میں کوئی حرج نہیں ،لیکن ان تمام چیزوں سے پہلے اپنے رشتہ دار ،پڑوس ،بستی والے  گاوں والے ،اپنے شہر والے غریب لوگ پہلے حقدار ہیں۔اور ان مین بھی مانگنے والوں کے مقابلے میں نہ مانگنے والے زیادہ حقدار ہیں۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 0 / 5. Vote count: 0

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply