پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خادموں کے ساتھ قسط ۱

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خادموں کے ساتھ
یہ اللہ کا نظام ہے کہ کوئی مالک ہے تو کوئی مملوک ، کوئی آقا ہے تو کوئی غلام، کوئی امیر ہے تو کوئی غریب، کوئی ذمہ دار ہے تو کوئی ما تحت، اس میں انسانی قوت کا کوئی دخل نہیں ؛ لیکن آزمائشی مرحلہ یہ ہے کہ مالک اپنے مملوک کے ساتھ کیابرتاوٴ کرتا ہے؟ مخدوم اپنے خادم کے ساتھ کیا رویہ اپناتا ہے؟ حاکم اپنے مملوک کے تئیں کس سلوک کا مظاہرہ کرتا ہے؟ آقا اپنے غلام کے ساتھ کس رُخ کو اپنا تا ہے؟ ذمہ دار اپنے ماتحت کے تئیں کس پہلو کو اختیار کرتا ہے؟ ان میں سے ہر ایک کو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا اسوہ پیش نظر رکھنا چاہیے، آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنے محکومین، مخدومین، ماتحتوں، خدام کے ساتھ کیا طریقہ کار اپنایا ہے؟ چوں کہ جہاں آپ صلى الله عليه وسلم بیک وقت مخدوم بھی تھے، غلاموں کے آقا بھی تھے، محکوموں کے حاکم بھی تھے، رعایا کے امیر بھی تھے، اسی لیے آپ صلى الله عليه وسلم کے اسوہ میں انسانیت کے ہر طبقہ کے لیے را ہ نمائی موجود ہے، جس سے ہر ایک مستفید ہوسکتا ہے، سیرتِ رسول کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے جس طرح دیگر افراد کے حقوق کا تذکرہ فرمایا، وہیں آپ صلى الله عليه وسلمنے غلاموں اور خدام کے حقوق کی جانب بھی توجہ دلائی، جہاں آپ صلى الله عليه وسلم نے خدام کے ساتھ نرمی، ماتحتوں کے ساتھ اخوت کے پہلو کو اپنانے کی ترغیب دی، وہیں پر غلاموں کے ساتھ شفقت ومحبت کا مظاہرہ کرنے انہیں آزاد کرنے کی ترغیب دی۔
اب ہم دیکھیں گے کہ غلاموں وخدام کے حقوق کیا ہیں؟
ایک انسان جب کسی کی خدمت کے لیے وقف ہوجائے تو مالک کے ذمہ بھی کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں، یہی نہیں کہ مالک خادموں سے خدمت تو لے، اس کے بعد جب ادائیگی حقوق کا مرحلہ ہو تو انجان ہوجائے،آپ صلى الله عليه وسلم نے غلاموں کے حقوق کا اتنا اہتمام فرمایا کہ اخیر مراحل میں بھی جس چیز کی وصیت فرمائی اس میں غلام کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرنے کی تلقین فرمائی۔ (مسند احمد: 584 مسند علی)
ایک موقعہ پر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تمہارے خادم وغلام تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارا ما تحت بنایا ہے، جو خود کھائے ،وہ اپنے غلام وخادم کو کھلائے، جو خود پہنے، وہ اپنے خادم وغلام کو بھی پہنائے، ان پر ضرورت سے زائد بوجھ مت ڈالو، اگر ڈال ہی دو تو تم بھی ان کی اعانت وامداد کرو۔ (بخاری: 30 باب المعاصی من أمر الجاہلیة) یہ آپ صلى الله عليه وسلم کی رحمتِ تامہ کا اثر ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے خدام وغلاموں کو ماتحتوں کی صف سے اٹھا کر بھائی کے درجے تک پہنچادیا، جس طرح ایک انسان اپنے حقیقی بھائی کے ساتھ غلط سلوک کا تصور تک نہیں کرسکتا، اسی طرح اپنے غلام وخادم کو بھائی ہی تصور کرے، اسی طرح خوراک وپوشاک میں غلاموں کے ساتھ ہم مثل برتاوٴ کرے، صحابہ کرام کا عجیب وغریب مزاج تھا، دربارِ نبوی سے کوئی بات سنتے تو فورا ًاس کا اثر قبول کرتے ہوئے عمل در آمد فرماتے، حضرت ابوذر جو مقامِ ربذہ میں رہا کرتے تھے، انہوں نے آپ صلى الله عليه وسلم کا یہی فرمان سن رکھا تھا، انہوں نے جو اچھا کپڑا پہنا تھا ،وہی کپڑا اپنے غلاموں کو بھی پہنادیا تھا، معرور بن سوید نے ابوذر سے وجہ دریافت کی تو ابوذر نے آپ صلى الله عليه وسلم کا قول نقل کردیا۔ (بخاری: 30 باب المعاصی من أمر الجاہلیة) الغرض آپ صلى الله عليه وسلم کے یہ فرامین ما تحتوں کے حقوق کی نشان دہی کر رہے ہیں، سردار ومخدوم کو اس جانب متوجہ کررہے ہیں کہ وہ اپنے ما تحتوں کے ساتھ برادرانہ اسوہ اپنائیں، نہ یہ کہ وہ اپنے ماتحتوں کی توہین وتحقیر کریں۔
نبی نے خادموں کو تنبیہ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
کئی مرتبہ غلطی کرنے پر نا فرمانی کی راہ اپنانے پر خدام کی تنبیہ کی جاسکتی ہے؛ لیکن تنبیہ کا طریقہٴ کار ایسا اپنا یا جائے کہ جس سے غلام کی اصلاح بھی ہو، اور تکلیف بھی نہ ہو، آپ صلى الله عليه وسلم کے جو اوصاف مبارکہ بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک اہم وصف کی جانب حضرت عائشہ نے توجہ دلائی کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے کبھی بھی کسی خادم کو نہ مارا اور نہ ہی کسی عورت کو مارا۔ (ابوداوٴد: 4786، باب التجاوز فی الأمر)
آپ صلى الله عليه وسلم نے جیسے خود مارنے سے احتراز کیا ،اسی طرح دیگر صحابہ کرام کو بھی اس سے باز رکھتے رہے، ابو مسعود انصاری فرماتے ہیں: ایک دفعہ میں اپنے غلام کو ماررہا تھا، میں نے اپنے پیچھے ایک آواز سنی، ”جان لو ابومسعود!اللہ تم پر اس غلام سے زیادہ قادر ہے“۔اس آواز کی جانب متوجہ ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلم موجود ہیں، ابو مسعود نے کہا: یارسول اللہ! یہ غلام اللہ کے لیے آزاد ہے، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ابو مسعود! اگر تم اس غلام کوآزاد نہ کرتے تو تمہیں آگ چھولیتی۔ (مسلم : 1650 باب صحبة الممالیک )
اسی طرح کا واقعہ عبد اللہ بن عمر کے ساتھ پیش آیا، ایک دفعہ انہوں نے اپنے غلام کو مارا، پھر اس کے بعد غلام کو طلب کیا، اس کی پشت پر مار کے اثرات دیکھے، اس کے بعد تکلیف کی بابت دریافت کیا ،پھر آزاد کردیا، درحقیقت یہ آپ صلى الله عليه وسلم کے رحیم قلب کے اثرات تھے، جو صحابہ کرام کے قلوب تک منتقل ہوئے تھے، نہ صرف یہ کہ آپ صلى الله عليه وسلمنے مارنے ہی سے منع فرمایا؛ بلکہ آپ صلى الله عليه وسلمنے یہ بھی ارشاد فرمایا: اگر کوئی غلام کو مارہی دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس غلام کو آزاد کردے (مسلم: 1657 ،کفارة من لطم عبدہ)
غور کیجیے! صبح سے شام تک ایک شخص سے ہم خدمت لیتے ہیں، اتفاقا اس سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو ہم اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں، حتی کہ مارتے ہیں، کچھ ہی دیر بعد اس خادم وغلام سے خدمت کے خواہاں ہوتے ہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ابھی تو وہ ملعون تھا، تھوڑی ہی دیر میں وہ تمہارا خادم کیسے بن سکتا ہے؟ آخر وہ بھی تو انسان ہے، وہ بھی اپنے پہلو میں دل رکھتا ہے، ماتحتی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم اس کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھیں، نہ صرف یہ کہ آپ صلى الله عليه وسلم +نے غلاموں کو مارنے ہی سے منع کیا ہے؛ بلکہ ان کے لیے صحیح الفاظ تک استعمال کرنے کی تلقین کی ، تم میں کوئی بھی اپنے غلام وباندی کو عبدی ، امتی نہ کہے، کیوں کہ تم سب ہی اللہ کے بندے ہو اور تمام عورتیں اللہ کی باندیاں ہیں، لیکن تم اپنے غلاموں کو غلامی، باندیوں کو فتاتی کہہ سکتے ہو۔ (مسلم: 2249 باب لفظة العبد)۔