پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خادموں کے ساتھ قسط ۲

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خادموں کے ساتھ قسط دوم
انسان غلطیوں سے مرکب ہے، بشر ہونے کے ناطے کسی سے بھی غلطی ہوسکتی ہے، اسی طرح اگر غلطی غلام ماتحت سے ہوجائے تو اس سے انتقام نہ لیا جائے، اس کی پکڑ نہ کی جائے، اس پر سختی نہ کی جائے، عفوو در گذر کی راہ اپنائے، آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ امت کواسی کا پیغام دیا، ایک صحابی آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں آکر دریافت کرنے لگے، خادم کو ہم کتنی دفعہ معاف کریں؟ آپ صلى الله عليه وسلم خاموش رہے، سوال دہرایا گیا تو پھر خاموش رہے، جب تیسری دفعہ سوال ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلمنے فرمایا: روزانہ ستر دفعہ معاف کیا کرو۔(ابوداوٴد: 5164، باب فی حق المملوک) ماتحتوں کی غلطی پر پکڑ کرنے کے بجائے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ ہمیں سزائیں دینے پر قادر ہے۔
کوئی بھی انسان کسی کی خدمت کرتا ہے تو مخدوم خدمت کا صلہ تو حقیقی معنی میں دے ہی نہیں سکتا، قلیل معاوضہ وخرچ خدمت کا صلہ نہیں ہوسکتا، تو کم ازکم خدام کو دعاوٴں سے نوازا جائے، حضرت انس آپ صلى الله عليه وسلم کے خادم خاص رہے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت انس کو تین دعائیں دیں، عمر میں برکت کی، مال میں برکت کی، اولاد میں برکت کی، اس دعا کا اثر یہ ہوا کہ خود حضرت انس فرماتے ہیں، میں نے طویل عمر پائی، مال میں برکت یوں ہوئی کہ مدینہ میں سب کے باغ سال میں ایک دفعہ پھل دیتے تو میرے باغ دو دفعہ دیا کرتے، اولاد میں برکت یوں کہ آپ کی صلبی اولاد کی تعداد علامہ شمس الدین ذہبی کی صراحت کے مطابق 106 تک پہنچ گئی تھی۔ (سیر اعلام النبلاء 399/3 بیروت)۔
، بعض دفعہ خدام سے گستاخی یا طبیعت کے خلاف کسی بات کے پیش آجانے پر انسان تنبیہ کرنے کے بجائے بد دعا کا سہارا لیتا ہے، آپ صلى الله عليه وسلمنے اس طرح بد دعا کرنے سے سختی سے منع فرمایا ، اپنے لیے بد دعا نہ کرو، نہ ہی اولاد کے لیے، نہ ہی اپنے خادم کے لیے ، نہ ہی اپنے مال کے لیے؛ اگر قبولیت کی گھڑی موافق ہوجائے گی تو یہ بد دعا قبول ہوگی۔(ابوداوٴد: 1532، باب النہی أن یدعو الانسان)
حضرت انس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ایک طویل عرصہ گذارا ،اس کے باوجود آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی ان پر ظلم وزیادتی نہ کی، کبھی ان کے ساتھ ناروا سلوک نہ اپنایا، بزبان خود حضرت انس فرماتے ہیں: میں دس سال تک آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت کرتا رہا، قسم بخدا! آپ صلى الله عليه وسلمنے کبھی مجھے بُرا نہ کہا، نیز کبھی اُف تک نہ کہا، اور کسی بھی چیز کے بارے میں یہ سوال نہ کیا کہ تم نے یہ کام کیوں نہ کیا؟ یایہ کیوں کیا؟ (مسند احمد: 1278 ،مسندانس بن مالک) خادم کی گواہی مخدوم کے حق انتہائی معتبر ہے؛ کیوں کہ خادم کو دورانِ خدمت سردو گرم حالات سے گذرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود نرمی کی تصدیق قابلِ حیرت ہے، حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلى الله عليه وسلمنے مجھے کسی ضرورت کے لیے بھیجا، میں نکلا تو بازار میں کھیلتے ہوئے بچوں کے ساتھ شامل ہوگیا، تھوڑی ہی دیر کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے پیچھے سے میری گردن پکڑ کر فرمایا: ” اے اُنیس! ابھی تک تم نے وہ کام کیا نہیں؟ “حضرت انس نے جواب دیا ،ابھی جا کر آتا ہوں یا رسول اللہ (مسلم :2310 باب احسن الناس خلقا)۔
غور کیجیے! آپ صلى الله عليه وسلمکے حکم فرمانے کے باوجود حضرت انس کھیل میں مصروف ہوگئے، اتنی تاخیر ہوگئی کہ آپ صلى الله عليه وسلم خود انس کو تلاش فرماتے ہوئے نکل پڑے، اس کے باوجود آپ صلى الله عليه وسلمنے خادم پر کوئی نکیر نہ کی ، خدمت میں کوتاہی پر کوئی حرف زنی نہ کی، بلکہ یا ”اُنیس“ کہہ کر مخاطب فرمایا، یہ انداز ِتخاطب انتہائی محبت سے بھر پور ہے، چھوٹے بچوں کو ان الفاظ سے محبت کے اظہار کے موقعہ پر پکارا جاتا ہے، بجائے اس کے کہ آپ اان پر خفا ہوتے، انہیں ڈانٹتے ، صرف آپ صلى الله عليه وسلم نے محبوبانہ انداز میں استفسار فرمایا، مطلوبہ حکم کے بجا نہ لانے پر، کام نہ کرنے پر خدام کے ساتھ کیا طرزِ عمل اپنانا چاہیے اس سے بخوبی راہ نمائی حاصل ہوتی ہے، اسی طرح حضرت زید بن حارثہ ،جو حادثاتی طور پر غلام ہوگئے تھے اور غلامی کے ایام میں آپ صلى الله عليه وسلم کی ملکیت میں آگئے تھے، زید کے والد بیٹے کی جدائیگی پر انتہائی غمگین وپریشان تھے، بیٹے کی جدائیگی پر انہوں نے اشعار بھی کہے، کسی طرح ان کے علم میں یہ بات آئی کہ حضرت زید آپ صلى الله عليه وسلم کے غلام بن گئے ہیں، انہوں نے آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بیٹے کا مطالبہ کیا، آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت زید کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو اپنے والد کے ساتھ جائیں یا یہیں رہیں، حضرت زید نے والد کے بجا ئے آپ صلى الله عليه وسلم کی غلامی ہی کو پسند کیا، حقیقت یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلمکے اخلاق سے حضرت زید اتنے متاثر ہوگئے تھے، کہ آزادی کے بجائے غلامی کو پسند فرمایا، والد کے بجائے، خاندان وقبیلہ کے بجائے آپ ا کو ترجیح دی، یہ وہی رحیمانہ وکریمانہ پہلووٴں کے اثرات تھے، جس کے سایہ میں حضرت زید پروان چڑھے تھے، جسے کسی بھی قیمت پر انہوں نے چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ (طبرانی: 4651)
خلاصہٴ کلام یہ ہوا کہ مختلف مواقع پر آپ صلى الله عليه وسلم نے ماتحتوں کے ساتھ نرمی، محبت، الفت ،رحمت کے پہلو اپنانے کی تلقین کی ہے، آپ صلى الله عليه وسلم نے ماتحتوں کے سلسلہ میں اس پہلو کی بھی رعایت کی کہ ان پر زائد بوجھ نہ ڈالا جائے، تحمل سے زائد کا م نہ لیا جائے، اگر زائد کام لوتو ان کا ساتھ دے دیا کرو۔ (بخاری: 30 باب المعاصی من أمرالجاہلیة)۔ ، الغرض ہمیں اس بات کو جانچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ماتحتوں کے ساتھ اپنے خادموں ، ملازموں کے ساتھ کیا رویہ اپناتے ہیں؟ کہیں ہم انہیں بے جا تکلیف تو نہیں دے رہے ہیں، کہیں ماتحتوں کے ساتھ ہمارا رویہ سیرت نبوی کے مخالف ومتوازی تو نہیں ہے؟ جانچنے کے ساتھ ہمارے رویہ میں تبدیلی کی ضرورت ہے، سیرت رسول صلى الله عليه وسلم کے مطابق طرزِ عمل اپنانے کی ضرورت ہے، اللہ عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین!