پیارے نبی تاجروں کے ساتھ

پیارے نبی تاجروں کے ساتھ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانوادۂ قریش میں ہی آنکھیں کھولیں۔ اور اسی تجارتی ماحول میں نشوونما پائی، آپ کے چچا حضرت ابو طالب بھی تاجر تھے اور تجارت کے لئے دور دراز کے سفر اختیار کیا کرتے تھے۔ دادا کی وفات کے بعد انہوں نے آپ کی پرورش کا ذمہ اپنے کندھوں پر اُٹھایا اور آپ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب رکھا۔ اسی محبت کی بنا پر آپ کو اپنے ساتھ ان سفروں پر لے جانے لگے۔ آپ ﷺ پہلی بار بارہ ۱۲ سال دو ماہ کی عمر میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے۔ اسی سفر میں عیسائی راہب ’بحیرا‘ کی آپ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے حضور ﷺ کے پُر جلال چہرے پر علاماتِ نبوت دیکھیں اور آپ کو آنے والے نبی کی پیشین گوئی کا مصداق پایا تو ابو طالب کو تاکید کی کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر عظیم انسان بنے گا۔ لہٰذا اسے شام کے یہودی دشمنوں سے بچایا جائے۔ چنانچہ ابو طالب نے فی الفور آپ ﷺ کو مکہ واپس بھیج دیا۔
آپ کو تجارت سے بڑی دلچسپی تھی۔ آپ ﷺ اپنے پیارے چچا ابو طالب کے کندھوں کو جو پہلے ہی کثیر العیال تھے مزید بوجھ بننا نہیں چاہتے تھے۔ اس لئے تجارت کو جاری رکھا۔ آپ اپنے تجارتی معاملات بڑی دیانتداری سے نبھاتے۔ راستبازی اور صدق و دیانت کا بڑا خیال رکھتے۔کاروبار کی کامیابی اور اپنی ساکھ
برقرار رکھنے کے لئے سچائی و امانت داری کے دو سیدھے سادھے اصول ہیں، بالفاظ دیگر سچائی اور امانتداری پر ہی دوکانِ تجارت کا چمکنا ممکن ہو سکتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺجلد ہی اپنے اوصاف کی بنا پر مکہ کے کامیاب ترین تاجر ثابت ہوگئے۔ اور پوری قوم میں آپ ﷺ کا نام ’صادق‘ اور ’امین‘ مشہور ہو گیا۔ آپ کی سچائی اور حسنِ کردار کا سکہ ہر آدمی کے دل پر بیٹھ گیا ۔
ان دنوں مکہ میں سب سے زیادہ مال دار ایک معزز خاتون خدیجہ بنت خویلد تھیں۔ جو دوبارہ بیوہ ہو چکی تھیں۔ انہوں نے باپ سے کثیر جائیداد ورثے میں پائی تھی۔ اور اب تمام تر توجہ تجارت کی طرف مبذول کر رکھی تھی۔ انہوں نے رسول اکرم کی تعریف سنی تو خواہش ظاہر کی کہ آپ ﷺ ان کا سامانِ تجارت سر زمینِ شام کی طرف لے جائیں اور معاملہ یہ طے ہوا کہ وہ آپ کو دوسرے لوگوں کی نسبت دوگنا منافع دیں گی۔ انہوں نے اپنے غلام میسرہ کو بھی آپ کے ہمراہ کر دیا۔ آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب سے مشورہ کرنے کے بعد یہ پیش کش قبول کر لی اور میسرہ کے ہمراہ دوسری بار شام کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر میں حضرت خدیجہ کو پہلے کی نسبت کافی زیادہ نفع حاصل ہوا۔ ساتھ ہی میسرہ نے آپ کے حُسنِ معاملت اور صداقت و امانت کی چشم دید داستان سنائی تو حضرت خدیجہ آپ ﷺ سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ اپنی سہیلی یا کنیز نفیسہ کے ہاتھ فی الفور آپ کو شادی کا پیغام بھجوا دیا۔ آپ ﷺ نے اپنے چچا سے مشورہ کرنے کے بعد بشرح صدر ان کا یہ پیغام قبول فرمایا۔ اس طرح یہ پچیس سالہ نوجوان اپنے سے پندرہ برس بڑی خاتون سے جو پہلے دو دفعہ بیوہ ہو چکیں تھیں، رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گیا۔
نکاح کے بعد حضرت خدیجہؓ نے اپنا سارا مال حضور ﷺ کے قدموں پر نچھاور کر دیا۔ مگر آپ نے ان کا سارا مال غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی امداد پر صرف کر دیا اور اپنی معاشِ تجارت کو برقرار رکھا۔ اسی سے اپنے کنبے کی گزر بسر کرتے۔
عرب میں ہر سال جو مشہور تجارتی میلے منعقد ہوتے۔ تو رسول اللہ ﷺ بھی اپنا سامان تجارت ان میلوں میں لے جایا کرتے آپ کی اما نتداری کی بنا پر آپ کاسامان میلے میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتا۔
یہ اسی سچائی کا اثر تھا کہ لوگ اپنی قیمتی امانتیں بلا جھجک آپ کے پاس رکھ جاتے اور جب چاہتے صحیح سلامت واپس لے لیتے۔ اعلانِ نبوت کے بعد بھی آپ کے جانی دشمن اپنی امانتیں آپ ہی کے پاس رکھا کرتے۔ حتیٰ کہ ہجرت کی رات کو جب کہ اعداءِ اسلام نے ننگی تلواروں کے ساتھ آپ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو فرمایا۔ تم آج رات میرے بستر پر لیٹ جاؤ، اورکل ہر ایک کی امانتیں واپس کر کے مدینہ آجانا۔‘‘
چالیس برس کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصبِ نبوّت سے سرفراز فرمایا اور بتدریج آپ کے کندھوں پر تمام دنیا کی ہدایت و رہبری کا بوجھ ڈال دیا۔ اب آپ نے اپنی گوناگوں مصروفیات کی بنا پر تجارت کو خیر باد کہا۔ اپنے تمام تر قویٰ اور صلاحیتیں اپنے عظیم تر مشن یعنی تحریکِ اسلامی کی تبلیغ پر صرف کر دیں۔ اس نئی تحریک اور نئے دین کی تبلیغ میں تن و من دھن کی بازی لگا دی، آخر تیرہ سال کی مشکلوں کے بعد آپ مدینہ منورہ میں ایک فلاحی اسلامی مملکت کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس اسلامی ریاست میں تمدّن کے ہر شعبے میں گوناگوں انقلاب انگیز اور روح پرور اصلاحات نافذ فرمائیں۔ جن کی بنیاد ایمانداری توحید و رسالت، راستبازی صدق و امانت اور آخرت میں جوابدہی کے احساس پر رکھی۔ اس طرح دین و دنیا، مذہب و سیاست، معیشت و معاشرت، اخلاق و اعمال حقوق اللہ و حقوق العباد غرض کہ ہر شعبہ زندگی کو رضائے الٰہی کے تابع کر دیا۔