نیا سال اور ہم

نورالدین عمری یم اے،یم فل۔

قارئین آج سے نئے سال کا آغاز ہو چکا ہے  اور ہیپی نیو ایئر کی مبارک بادیں دی  گئی، ہر طرف دکانوں میں نیو ائیر کارڈس فروخت ہوچکے ،دیواروں سے کیلنڈرس ہٹائے جارہے ہیں ،اور سن عیسوی کے ہندسے بدلے  گئے ،ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر آنے والا سال اس دُنیا کی وسیع تر آبادی کے لیے مزید   تکلیفوں  کا پیام بن کر آرہا ہے، کیونکہ یہ سال اور وقت جن سماجی نظاموں میں سے گزرتے ہیں وہ ایک  ایسا سماج ہے جس میں امیر ،غریب کے خون پسینہ سے  اپنی عمارتیں تعمیر کرتا ہےغریب کو نچوڑ کر اپنی پیاس بجھاتا ہےحکمران طبقہ غریبوں کی سڑکیں مار کر،غریبوں کی سہولیات ہڑپ کر کے ،اپنے عیش کو جاری رکھتا ہے۔ درحقیقت نئے سال میں نیاپَن کچھ نہیں بلکہ سب کچھ ویسا ہی ہے۔ دن رات، زمین آسمان سب کچھ وہی ہے، اور وقت کی کڑوی یادیں بھی اسی طرح ہمارے ساتھ ہیں۔

مسلمانوں کا اپنی زندگی کے اس نئے سال کا استقبال کرنا ہی ایک بہت بڑا واقعہ ہے جو اس حقیقت کی یاددلاتا ہے کہ یہ شب و روز مراحل اور سواریاں ہیں جو کہ ہمیں اس دنیا سے دور لئے جا رہے ہیں اور ہمیں آخرت کے قریب کئے جا رہے ہیں ۔

کیا ہمارا یہ ایک سال کو الوداع کہنا اور دوسرے سال کا استقبال کرنا ہماری ہمتوں کو  بلند اور ہمارے عزائم کو بیدار کرے گا ؟ صاحب توفیق وہ ہے جو اپنے حال کی اصلاح کے لئے کوشش کرے اور اپنی بقیہ زندگی کے دنوں میں کچھ کر گزرنے کی ٹھان لے تاکہ اس کا  آ نے والاکل آج سے بہتر ہو اور اس کا آج گزشتہ کل سے افضل و اعلی ہو اور اس کا نیا سال اس کے گزشتہ سال سے اچھا ہو ۔ عقلمند وہی ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کر لے ، اپنے حسابات کی جانچ پڑتال کرے ، اعمال صالحہ کا توشہ جمع کر لے اور اپنے سابقہ گناہوں اور گزشتہ خطاؤں سے اپنے رب کی طرف توبہ نصوح کرلے

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہما را گزشتہ سال تو گزر گیا ہے جبکہ امت اسلامیہ مصائب و مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے ۔ طرح طرح کے آزمائشوں میں مبتلا ہے حکمرانوں کے مکر وفریب  کے شکار نظر آتے ہیں۔

جی ہاں !

آج جبکہ امت مسلمہ مختلف راستوں کے چوراہے بلکہ کئی راستوں کے جنکشن پر کھڑی ہے اس پر  ضروری  ہے کہ وہ اس بات کا یقین کامل اور علم یقین حاصل کر لے کہ اس کی عزت و قوت اس کے اپنے دین کے ساتھ گہرے  تعلق اور اپنی شریعت پر مکمل عمل اور اپنے نبی کی اتباع سنت میں  پوشیدہ ہے ۔

مسلمانوں پر ضروری یہ ہے کہ وہ موجودہ ہر چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کریں جو انھیں دیا جا رہا ہے

جس طرح نئے سال میں نیاپَن کچھ نہیں، اسی طرح پچھلا سال بھی کسی عذاب سے کم نہ تھا بلکہ ظلم و جبر  کا سال تھا، قتل و غارت گری کے نئے انداز کا سال تھا، ،  عوام کے ساتھ حکمرانوں کی دورُخی کا سال تھا، ۔ کل بھی اِنصاف نہیں مِل رہا تھا اور آج بھی ہم اِنصاف کے متلاشی ہیں۔

گزرے سال کے آخری دن وہی روایتی سوال خود سے اور دوسروں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ سال کیسا گزرا، کیا کھویا اور کیا پایا۔ بحیثیت قوم ہم نے اِتنا کچھ کھویا کہ شمار کرنا مشکل ہے۔ کتنا عجیب لگتا ہے جب ہر کوئی اپنے آس پاس موجود لوگوں کو مشتبہ نظر سے دیکھتا ہے۔ جب اخبار اُٹھاتے ہوئے، خبریں سُنتے ہوئے  چہروں پر افسردگی چھا جاتی ہے۔ ہم نے سال بھر روز نامے دیکھا ہفت نامے دیکھا،ماہ نامے دیکھا ،پرنٹ میڈیا دیکھا،الیکٹرانک میڈیا دیکھا،کہیں سے بھی مسکراہٹ والی خبر نہ گزری،ہر طرف دوست دوست سے خوفزدہ، پڑوسی پڑوسی سے نالاں رہے۔ عوام روٹی، کپڑا اور مکان کے چکر میں دَر دَر بھٹکتے رہے  پھر بھی زندگی رواں دواں  رہی اور اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھُوٹا۔

جس طرح گزرا سال بے تحاشا پریشانیوں اور دُکھوں کا سال رہا، اس بارے میں ضرور سوچنا ہوگا کہ یہ استحصال صرف ہمارے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے۔ جب کل اور آج میں کوئی خاص فرق دِکھائی نہیں دیتا تو پھر ہم آنے والے سال سے اِتنی اُمیدیں کیوں لگاتے ہیں؟ اگر ان سوالات کے جوابات مِل جائیں تو پھر ایک نئے عزم کے ساتھ تہیہ کرلیں کہ ہم آج سے ہی جھوٹ، مکر، فریب، غیبت، بخیلی، تنگ دلی، فضول گوئی، بے صبری، خودنمائی، خود ستائی،، وعدہ خلافی،، لڑائی جھگڑے، آبروریزی، ایذا رسانی، نفرت، غصہ، احساسِ برتری،  تخریب کاری، چغل خوری، کام چوری، سود خوری، ظلم، بدعہدی، خیانت، سنگ دلی، تنگ نظری، بزدلی، بدتمیزی،، بے وفائی،نااتفاقی، قتل، ڈاکہ، جعل سازی، رشوت خوری، بدزبانی، بہتان تراشی، فساد انگیزی، تکبر، ہٹ دھرمی، حرص، ریاکاری اور منافقت جیسی برائیوں کا اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرکے  امدادِ باہمی، محبت، اعتبار، وسعت نظری، سچائی، نیکی، انصاف، پاسِ عہدی، امانت داری، ہمدردی، فیاضی، فراخ دلی، صبر و تحمل، اخلاقی بردباری، خودداری، شائستگی، ملنساری، فرض شناسی، وفا شعاری، مستعدی، احساس ذمہ داری، والدین کی خدمت، رشتہ داروں کی مدد، ہمسایوں سے حسن سلوک، دوستوں سے رفاقت، یتیموں اور بے کسوں کی خبر گیری، مریضوں کی تیمارداری، مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت، پاک دامنی، خوش گفتاری، نرم مزاجی، خیر اندیشی، راست بازی، فراخ دلی اور اَمن پسندی جیسی اچھائیوں کو اپنائیں گے، ورنہ ہر نیا   عیسوی سال صرف ہندسوں کی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔خوبیاں پیدا کریں تو نیا سال مبارک ہوگا ورنہ زندگی کے عیسوی بدلتے رہیں گے  یہاں تک موت کا فرشتہ حاضر ہوگا ۔پھر ہماری ساری خواہشیں ادھوری رہ جائیں گی۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 0 / 5. Vote count: 0

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply