نظام تعلیم کی خرابیاں

This is an image caption
نظام تعلیم کی خرابیاں
تعلیم صرف کتابوں کا یا سلیبس کا نام نہیں ہے بلکہ تعلیم 4 چیزوں کے مرکب کا نام ہے،1طالب علم،2 نصاب 3 استاذ 4 ماں باپ ۔ان چاروں کے ملنے سے تعلیم کا روپ بنتا ہے۔ان میں سے کوئی بھی بگڑ جائے تو تعلیم پر اثر پڑھتا ہے۔
ان چاروں چیزوں میں طالب علم سب سے چھوٹا ہوتا ہے،بقیہ تین چیزیں اس کے مقابلے میں بڑی ہوتی ہیں۔اگر ان تین چیزون مین خرابی پیدا ہوتو اس کا براہ راست اثر طالب علم پر پڑھتا ہے۔
نظام تعلیم کی ان چار اکائیوں میں اگر خرابی پیدا ہوتو پھر تعلیم اپنا اثر کھودیتی ہے۔
پہلی خرابی :نصاب تعلیم :1 تعلیم تو دی جارہی ہے لیکن تربیت کا فقدان ہے،ایسا نصاب جس میں روحانیت کو مکمل ہٹا دیا گیا ہے،اخلاقیات کو ہٹا دیا گیا،اللہ کا ،نبی کا ،آخرت کا ،جنت کا ،جہنم کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا ۔آج کا نصاب صرف کمانے کی مشین تیار کرتا ہے ،چاہے حلال طریقے یا حرام طریقے سے۔
دوسری خرابی ؛استاذ: آج استاذ کا مطلب صرف کلاس میں حاضری دینے اور نصاب کو مکمل کرنے کی مشین بن کر رہ گیا ہے۔استاذ میں جیسے تربیت کی فکر ،تڑپ ،برائی کو اچھائی میں بدلنے کی جستجو ہونی چاہئے نظر نہیں آتی،استاذ ایک تحریک کا نام ہے،جو طلبہ کے لئے رول ماڈل ہوتا ہے،اس کی باتیں ،اس کا لباس،اس کا انداز،اس کا اسلوب،اس کی محنت ،اس کی زبان سب کچھ رول ماڈل ہوتی ہے۔لیکن استاذ ان چیزوں کی طرف دھیان نہیں دیتے ہیں ،الا ماشاءاللہ۔وقت کی پابندی ہو،بار بار اسکول نہ بدلے،ایک جگہ قائم رہتے ہوئے کام کرے۔تدریس کو مجبوری کا ذریعہ نہ بنائے،بلکہ پوری دلچسپی کو ڈال دے،اگر دلچسپی نہ ہوتو پیدا کرے۔
ماں باپ :ایک طالب علم کے لئے ماں باپ کا سپورٹ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے،مالی طور پر بھی ،اخلاقی طور پر بھی۔آج کے ماں باپ کے پاس وقت نہیں ہے،آج ماں باپ کی اپنی زندگیوں میں بے شمار اختلافات نظر آتے ہیں ،ان اختلافات اور لڑائی کا براہ راست اثر بچوں پر ،تعلیم پر پڑھتا ہے،جس گھر میں سکون نہ ہو اس گھر کے بچے کوئی بڑے کارنامے انجام نہیں دے سکتے ہیں۔
آج کے ماں باپ اپنے سارے کام انجام دیتے ہیں لیکن بچوں کی فیس کے بارے میں فکر نہیں کرتے ہیں،جب تک نوٹس نہ آئے تب فیس ادا نہیں کرتے،پیارنٹس میٹینگ اٹینڈ نہیں کرتے ہیں۔بچوں کے تعلق سے جو بھی ہدایات دی جاتی ہیں ان کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔
ان کے ساتھ اسکول مینیجمنٹ بھی بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے،اکثر ذمہ داران اساتذاہ کی تنخواہ وقت پر ادا نہیں کرتے ہیں ،اپنی ساری قوت وتوانائی اشتہارات پر لگاتے ہیں،اسکول کی آفس،ڈیکوریشن ،ایر کنڈیشن پر بے تہاشہ خرچ کرتے ہیں،اخبارات کے اشتہارات پر لاکھوں روپیہ لگاتے ہیں،لیکن تعلیم پر توجہ نہیں دیتے ۔کاش جتنا وقت اور پیسہ اشتہارات پر لگاتے ہیں اگر وہی وقت اور پیسہ تعلیم پر لاگایا جائے تو پھر اشتہارات کی نوبت ہی نہیں ائیگی۔