نسل کشی کے منصوبے  کیسے بنائے جاتے ہیں؟

کسی بھی نسل کو مٹانا آسان نہیں ہے  لیکن اس کے لئے  منصوبہ بندی ہوتی ہے ،پلاننگ ہوتی ہے ،مشورے ہوتے ہیں ،دنیا میں جہاں کہیں بھی  نسل کشی کی گئی  اکثر فارمولے ایک جیسے ہی ہوتے رہے ہیں ۔

پہلا  فارمولہ :سب سے پہلے لوگوں میں مذہبی اور قومی فرق کو اجاگر کیا جاتا ہے ،ہم الگ وہ الگ ہیں  کا رجحان پید ا کیا جاتا ہے ۔مذہبی  دیواریں کھڑی کی جاتی ہیں ۔مذہبی دیواروں میں دن بدن   سختی لائی جاتی ہے ۔

دوسرا فارمولہ : جس  قوم کی نسل کشی کرنا مقصد  ہوتا ہے ان کے ساتھ کچھ علامتوں کو جوڑا جاتا ہے ،جیسے مسلمانوں کے ساتھ ٹوپی  ،لنگی ،کرتا پائیجامہ ،لال رمال ،ڈاڈھی وغیرہ پھر ان علامتوں  کا غلط استعمال یا جاتا ہے ،پھر ان علامتوں   سے نفرت بھر دی جاتی ہے ۔فلموں کے ذریعہ ،سیریلس  کے ذریعہ ان علامتوں کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ہے ۔

تیسرا فارمولہ : مختلف قوانین کے ذریعہ شہریت کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے ۱۹۳۵ مین جرمنی میں یھودیوں کے ساتھ ہوا،برما میں مسلمانوں کے  ساتھ ہوا۔ملک میں الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اسی فارمولے کو ہندوستان میں لانے  کی وشش کی جارہی ہے ۔پہلا دوسرا فارمولہ میں کامیاب ہوچکے ہیں ۔نفرت کی دیوار مضبوط ہوچکی ہے ، ٹوپی کرتا پائجامہ  کو برائی کی جڑ  قرار دیا گیا ہے ۔اب تیسرے فارمولے  کو آزمایا جارہا ہے ۔

چوتھا فارمولہ :پھر اس کے بعد غیر انسانی سلو ک کیا جاتا ہے ،ان کو الگ تھلگ  کیا جاتا ہے،ان کو جانوروں ،بیماریوں سے تعبیر  کیا جاتا ہے  ان کے علاج   کی بات کی جاتی ہے ۔ان کو نکالنے کی بات  کی جاتی ہے ،دبے الفاظوں میں   یہ سارے الفاظ بولے جاچکے ہیں ۔

پانچواں فارمولہ : پھر اس کے بعد نسل  کشی کے لئے مختلف  ناموں سے غیر سرکاری تنظیمیں قائم کی جاتی ہیں جو وقتا فوقتا ہجوم کی شکل میں  فسادات برپا کرتے ہیں  ،ان پر کوئی مقدمہ بھی نہیں چلایا جاتا ۔

چھٹا فارمولہ :نسل کشی کے لئے الگ الگ لوگوں کو الگ لاگ کام دئے جاتے ہیں،ہر کام الگ لوگوں  سے کرایا جاتا ہے  کام کو  تقسیم  کیا جاتا ہے۔تاکہ کام آسانی سے بھی ہو اور الزام ایک پر نہ آسکے۔

ساتواں فارمولہ : پھر ظلم وبربریت کی بھٹیوں سے گزارا جاتا ہے ،چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر لمبی لمبی سزائیں دی جاتی ہیں ،تحقیق کے نام پر سالوں قید خانوں میں  ڈلا دیا جاتا  ہے ،جب  بری ہونے کا فیصلہ   آ جاتا ہے تو  اس وقت تک لگ بھگ  ۲۰ سال  کی سزا ہوچکی ہوتی ہے ،اس طرح وہ  قیمتی زندگی کے قیتی لمحات  کو قید وبند میں گزار دیتا ہے ۔

اس وقت مسلمانوں کو جوش  کے ساتھ ہوش  بھی   باقی رکھنا ضروری ہے ،انفرادی فیصلوں کے بجائے اجتماعی فیصلہ لیں،دلت طبقہ کے ساتھ روابط مضبوط کریں ،مسلم اور دلت  دونوں مل کر مضبوط دیوار ربن سکتے ہیں۔احتجاج پورے امن کے ساتھ کرنا ہوگا ،دشمن  عناصر احتجاجی ریالیوں میں شریک ہوکر تشدد برپا کرتے ہیں ۔ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔دشمن بھڑکانے کی کوشش کریں گے ،توڑ پھوڑ کا ماحول پیدا کریں گے لیکن  اپنے ہوش کو باقی رکھیں ۔پر امن احتجاج سے ہی  مسئلہ کا نکل سکتا ہے ۔بڑے پیمانے پر سپریم کورٹ میں پٹیشن ڈالیں ۔ملک کا ہر آدمی  کو اسکے   خلاف کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔سیاست داں جھوٹی تسلی دے کر ،اس ایکٹ کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں گے ،ان کی جھوٹی تسلیوں میں آنا نہیں ہے۔بلکہ اس ایکٹ کو مکمل ناکام بنانا ہے ۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 0 / 5. Vote count: 0

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply