ملک کے لئے کیا خطرہ ہے؟

ملک کے لئے کیا خطرہ ہے؟
کسی بھی ملک کی سالمیت کے لئے جو چیزیں خطرہ ہیں ان مین سے ایک انسانی جانوں کی قدر وقیمت کا ختم ہوجانا ہے،خون بہانا ،قتل وغارت گری کرنا،نفرت پھیلانا ملک کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔حالیہ چند سالوں میں فرقہ پرستی کو ہوا دینے کے لئے ماحول کو سازگار کیا جارہا ہے ،کاص طور پر گاو کشی کے شبہ میں حجوم کے حملہ بڑھتے جارہے ہیں،حجوم کے حملہ بھی ایک پالیسی کے تحت کئے جارہے ہیں تاکہ کسی پر بھی مقدمہ چلایا نہ جاسکے،سارے حملے صرف شبہ کی بنیادد پر کئے جارہے ہیں،ٹرینوں میں حملے،پولس اہلکاروں کے سامنے حملے،پاسپورٹ آفیسر کی بدسلوکیاں ،پولس اہلکاروں کا مجرموں کو کھلی چھوٹ دینا ،کھڑے ہوکر تماشہ دیکھنا ،یا حجوم کی طرف سے مکمل ہلاکت کے بعد پولس والوں کا جائے واردات پر پہونچنا ،سرکاری کارندوں کی بڑی سے بڑی غلطیوں پر بھی صرف معذرت کرتے ہوئے یا ان کا تبادلہ ،کرتے ہوئے یا ان کو وقتی طور پر معطل کرتے ہوئے کیس بھلا دیا جانا ایک عام روٹین بنتے جارہا ہے۔جب مجرم دیکھتا ہے کہ اس کے جرم پر کوئی بڑا ایکشن نہیں لیا جاتا تو اس کی ہمت بڑھ جاتی ہے ۔
اگر سرکاری کارندے جرم کی پشت پناہی کریں گے یا ان کے ساتھ نرم پہلو اختیار کریں گے،یا ان کے کیس کو سرد خانوں میں دال دیں گے تو یہ مظلوموں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔جرم کے خلاف آواز اٹھانے والے کئی صحافیوں کو منظم طریقہ سے قتل کیا جانا ،ان قاتلوں کے خلاف ایکشن لینے میں سست روی سے کام لینا ،یہ سارے کام ہمارے ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہیں،یہ مجرمانہ ذہنیت یا پالیسی چاہے کسی بھی ملک میں ہو وہ اس ملک کے لئے خطرہ ہے۔ہر ملک ایک گھر کی طرح ہوتا ہے،اس مین رہنے والے باشندے ایک گھر کے افراد کی طرح ہوتے ہیں،اگر کسی ملک کے باشندوں میں کچھ لوگ اپنے ہم وطنوں پر ظلم کرتے ہیں قتل وغارتگری کا ننگا ناچ کرتے ہیں تو سیدھی بات ہے کہ وہ اس ملک کے کھلے دشمن ہیں ،جیسے ایک گھر میں رہنے والا ایک بھائی اپنے بھائی کا قتل کرتا ہے تو وہ اپنے ہی گھر کو اجاڑ رہا ہے اس قاتل کی وجہ سے گھر کا سکون تباہ ہوجاتا ہے،گھر کے سارے افراد پریشان رہتے ہیں گھر کا چین ختم ہوجاتا ہے،ظاہر بات ہے اس قاتل کی وجہ سے گھر کے افراد میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔اب اس گھر کے افراد کی ذمہ داری ہے اس قاتل کا ہاتھ پکڑ لیں اس کو فساد پھیلانے سے روک دیں۔تبھی چل کر گھر پر سکون ہوسکتا ہے۔ اگر گھر کے افراد اس قاتل کو کھلی چھوت دیتے ہیں اس کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتے ہیں تو گویا وہ بھی گھر کو تباہ کرنے میں تلے ہوئے ہیں۔
ملک میں ہونے والے فسادات کے خلاف آواز اٹھانا ہوگا ۔سمجھ دار لوگوں کو آگے آنا ہوگا،جرم کرنے والا چاہے کوئی بھی ہو سزا دینا ہوگا۔ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ اگر پولس ڈپارٹ منٹ چا ہے کہ کسی تہوار میں فساد نہ ہو،کسی عید میں فساد نہ ہو،کسی ایلکشن میں فساد نہ ہو تو کسی کی مجال نہیں کہ فسادات کرے ،کیوں کہ اس کے پاس اتنا پور ہے اتنی پلاننگ ہے کہ کوئی مجرم کوئی فسادی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا ۔کوئی پولس کسی حجوم کے سامنے بے بس نہین ہوتی ہے اس کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں چند ہی لمحوں میں پولس کی ایک بڑی تعداد کو جائے واردات پر بلا کر حجوم پر قابو پایا جاسکتا ہے،
پولس والے اگر چاہیں امن ہو تو کوئی روڑی شیٹر دم بھی نہیں ہلا سکتا ہے،فسادات قتل وغارتگری بد امنی ان کی نرمی سے یا نظر انداز کئے جانے سے ہی ہوتے ہیں۔ملک کے سمجھ دار لوگوں کو آگے انا ہوگا ۔فرقہ پرستوں کے حوصلوں کو توڑنا ہوگا ،کیوں کہ ،کوئی ملک چاہے کتنی بھی بڑی آبادی والا ہو،کتنے بھی بڑی بڑی یونیورسٹیاں ہوں،ملک کتنا بھی زرخیز ہو،اگر اس میں قتل وغارتگری عام ہو تو ملک تباہ ہوجائیگا۔اگر انسانی جان محفوظ نہ ہو تو اس ملک میں کتنی بھی تاریخی چیزیں ہوں ،کتنے بھی دلکش پہاڑ ہوں،کتنی بھی پیاری ندیاں ہوں،کتنے بھی خوبصورت قدرتی مناظر ہوں کوئی فائدہ نہین ،ملک کی خوبصورتی امن میں ہے سکون میں ہے،محبت والفت میں ہے،خیر خواہی میں ہے۔