مسلم بادشاہوں نے ہندوستان کو کیا دیا؟

مسلم بادشاہوں نے ہندوستان کو کیا دیا؟
شاہانِ اسلام نے ہندوستان کو اپنا وطن سمجھا اور اس کو ترقی کی سمت گامزن کرنے میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا نیز اس کو دیدہ زیب، سونے کی چڑیااور پرکشش بنانے میں پوری دلچسپی کا مظاہرہ کیا، ”مسلمان اگرچہ ہندوستان میں فاتح کی حیثیت سے آئے لیکن اجنبی حکمرانوں کی طرح انھوں نے اس کو محض تجارت کی منڈی اور حصولِ دولت کا دریعہ نہیں سمجھا بلکہ اس کو وطن بناکر یہیں رس بس گئے اور مرنے کے بعد بھی اس کی خاک کے پیوند ہوئے اس لیے کہ انھوں نے حکومت و سیاست، علم وفن، صنعت وحرفت، زراعت وتجارت، تہذیب و معاشرت، ہر حیثیت سے اس کو ترقی دیا۔
یہی وجہ ہے کہ شہنشاہانِ اسلام نے مختلف مقامات پر تعلیمی ادارے قائم کیے، رفاہِ عام کا مکمل نظم و نسق کیا پھر ڈاک کی راہیں ہموار کیں، مختلف الانواع روز مرہ نیز سردیوں کے کپڑوں کے بے شمار کارخانے بنوائے، تجارت و زراعت کا صحیح زاویہ سکھایا اور متمدن ممالک کے اتصال کا سامان مہیا کیا نیز صنعت و حرفت کو بام عروج تک پہنچایا۔
”یہاں کے باشندے ہمیشہ سے نہایت سادہ لباس پہنتے تھے ، اکبر نے دلی، لاہور، آگرہ، شیخ پور، احمد آباد اور گجرات میں کپڑے کے بڑے بڑے کارخانے جاری کیے اور (یہی نہیں بلکہ) ایران، افغانستان، اور چین سے کاریگر بلواکر ہر قسم کے قیمتی کپڑے تیار کرائے۔“ (اسلامی حکومت اور ہندوستان میں اس کا تمدنی اثر،ص:۷)
اسی طرح اہل ہند کی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے جن خوراک کی بھی ضرورت پڑی خواہ باطنی ہو یا ظاہری مسلم حکمرانوں نے اس کو بہم پہنچایا۔
جواہر لال نہرو اپنی کتاب (تلاش ہند) میں ہندوستانی سماج، ہندوستانی فکر، اور ہندوستان کی تمدن و ثقافت پر مسلمانوں کے ناقابل فراموش گہرے اثرات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ کہتے ہیں:
”ہندوستان میں اسلام کی اور ان مختلف قوموں کی آمد نے جو اپنے ساتھ نئے خیالات اور زندگی کے مختلف طرز لے کر آئے، یہاں کے عقائد اور یہاں کی ہیئت اجتماعی کو متاثر کیا، بیرونی فتح خواہ کچھ بھی برائیاں لے کر آئے اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے، یہ عوام کے ذہنی افق میں وسعت پیدا کردیتی ہے اور انھیں مجبور کردیتی ہے کہ وہ اپنے ذہنی حصار سے باہر نکلیں، وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ دنیا اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔
سابق صدر کانگریس اور جنگ آزادی کے ایک رہنما ”ڈاکٹر پٹابی ستیہ رَمیّہ“ کے الفاظ کا نقل کرنا بھی بہتر ہوگا: ”مسلمانوں نے ہمارے کلچر کو مالامال کیا ہے اور ہمارے نظم ونسق کو مستحکم اور مضبوط بنایا نیز وہ ملک کے دور دراز حصوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کامیاب ہوئے، اس ملک کے ادب اوراجتماعی زندگی میں ان کی چھاپ بہت گہری دکھائی دیتی ہے۔“ (خطبہ صدارت انڈین نیشنل کانگریس اجلاس جے پور ۱۹۴۸/، بحوالہ ہندوستانی مسلمان، ص:۳۰)
ہمارے بعض اہل وطن کی نگاہ میں تمام مسلم حکمرانوں میں سب سے بڑا مجرم سلطان اورنگ زیب ہے۔ اور اس پر عائد تمام جرائم میں سے سب سے بڑا جرم ”ہندوؤں کے ساتھ تشدد اور ان کے منادر کو منہدم کرکے مساجد کی تعمیر ہے“ لیکن اس خود ساختہ الزام کا حقیقت سے کس قدر تعلق ہے ہر وسیع النظر مورخ اس کے صحیح نتیجہ تک بڑی آسانی سے پہنچ سکتا ہے۔ عالمگیر نے ان مندروں کو نشانہ بنا یا جہاں باغی چھپ کر بیٹھ جاتے ،مندروں میں ہتھیار جمع کرتے، اور عالمگیر کو نقصان پہنچاتے ،جس طرح باغیوں کے چھپنے اور پناہ گاہ بنے ہوئے مندروں کو نشانہ بنایا اسی طرح مساجد کو بھی نشانہ بنایا جہاں باغی ہتھیار کے ساتھ چھپے ہوئے ہوتے۔گویا عالمگیر کا نشانہ صرف مندر ہی نہیں بلکہ مساجد بھی بنے۔لیکن مورخ ایک کا ذکر کرتا ہے اور ایک چھوڑ دیتا ہے ۔ اگر ایک طرف عالمگیر کے ہاتھوں متھرا اور بنارس کے مندروں کو (ظاہری) نقصان پہنچا تو دوسری طرف اسی نے بے جا پور کی جامع مسجد کو بھی زمین سے ملوادیا نیز گولکنڈہ کی مسجدیں بھی اس زد میں آئیں اس بات کی گواہی ایک منصف مزاج ہندو مورخ ”بی، این، پانڈے“ کی تحریر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ تحریر کرتے ہیں: ”یہ بات بالکل غلط ہے کہ متھرا اور بنارس کے یا کہیں دوسری جگہ کے منادر کو توڑکر مسجدیں تعمیر ۔اور جناب پانڈے آگے مزید کہتے ہیں: مہا کال مندر (اجّین)، بالا جی مندر (چتر کوٹ) کا ماکھیہ مندر (گوہاٹی) جین مندر (گرنار) گرودوارا رام رائے (دہرا دون) وغیرہ کو (عالمگیر نے) جاگیر عطا کی اور اس دعا کی ہدایت کی کہ ․․․ اس کے خاندان میں تاقیامت حکومت بنی رہے۔“ (بحوالہ عہد وسطیٰ میں مشترکہ تمدن اور قومی یکجہتی،ص:۱۵۶)اب غور کریں اگر عالمگیر مندروں کو منہدم کرنے والا ہوتا تو کیا مندروں کو جاگیر بھی دے سکتا تھا ۔نہیں ۔جب اس نے مندروں کو جاگیر یں عطا کیں تو واضح مطلب یہ ہوا کہ وہ مندروں کو منہدم کرکے مسجد تعمیر کرنے والا نہیں تھا،
سارے مسلم بادشاہ سرزمین ہند پر باغباں بن کر آئے اور اپنی ساری طاقت ہندوستان کو سنوارنے میں لگائی ۔انگریز اپنے دور حکومت میں ساری دولت کو انگلستان منتقل کرتے رہے ،لیکن کسی مسلم بادشاہ نے یہاں کی دولت کسی جگہ منتقل نہیں کی،یہاں کی ساری دولت یہنیں پر استعمال کی۔اپنی ساری صلاحیت یہں پر لگائی۔بڑی بڑی یادگار عمارتیں دیں،بڑے بڑے قلعہ دئے،یونیورسٹیاں دیں ،ہسپتال دئے،بڑے بڑے ساگر دئے،
خلاصہ یہ ہے کہ آج اگر ہم تعصب و نفرت ،فرقہ واریت کی ہلاکت خیز بیماری سے نجات چاہتے ہیں اور ہندومسلم ایکتا قائم کرنے کے خواہاں ہیں تو ہمیں یورپ کی مکاری ،جھوٹ کیے جال سے اپنی نگاہوں کو موڑ کر حق و انصاف کی صحیح کسوٹی اختیار کرنا ہوگی، اور تعصب سے بالاتر ہوکر نیو جنریشن کے سامنے اپنے ملک ووطن کی صحیح تاریخ پیش کرنا ہوگی۔ ہمارے اصل دشمن – جو ہمیں باہم لڑانا چاہتے ہیں – کو منھ کی کھانی پڑے، اور جس طرح ہم پہلے سے ہندی رہے ہیں آئندہ بھی ہندی ہی رہیں۔اس ملک کی ترقی میں ہندو مسلم دونوں کا ہاتھ ہے،دونوں مل کر ہی اس ملک کو اور آگے لے جاسکتے ہیں۔جو لوگ ہندو مسلم کو لڑانا چاہتے ہیں نفرت کی آگ اگلتے ہیں،حقیقت میں وہی لوگ دیش دروہی ہیں،کیوں کہ ہندو مسلم کو لڑانے سے اس ملک کی ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔فسادات سے ملک کو نقصان ہی ہوگا،فسادات سے تعلیم پر ،تجارت پر،ٹرانسپورٹ پر،الغرض زندگی کے ہر شعبہ پر نقصان کا اثر ہوتا ہے۔