مایوسی نہیں بلکہ حل نکالیں

مایوسی نہیں بلکہ حل نکالیں
ناظرین ہم جس معاشرہ میں رہتے ہیں یہان اکثر لوگوں میں مایوسی نظر اتی ہے ،لوگ ایک دوسرے سے مایوس نظر اتے ہیں،اسکول والوں سے مایوس ،مدارس والوں سے مایوس ،مساجد کے ذمہ داروں سے مایوس ، علماء سے مایوس ،سرمایہ داروں سے مایوس ،نوجوانوں سے مایوس ،طلبہ سے مایوس ،اپنے نوکروں سے مایوس،لیڈروں سے مایوس ،حکمرانوں سے مایوس ،اخبار والوں سے مایوس ،مارکیٹ میں چھائے ہوئے تاجروں سے مایوس ،الغرض ہر طرف ایک مایوس کا جال بچھا ہوا ہے،ہاں ان سب سے ما یوسی کی ان کے پاس ایک وجہ بھی ہے ، لوگ عام اسکول والوں سے مایوس ہیں کیوں کہ ماں باپ اپنے بچوں کی تعلیم کے سلسلہ میں یا تربیت کے سلسلہ میں جتنی امید لگائے رکھتے ہیں وہ پوری ہوتی نظر نہیں آتی ہے،وہ جتنی فیس ادا کرتے ہیں اس قدر انہیں بدلہ نہیں مل رہا ہے،یا اسکول والے پہلے جیسے وعدہ کرتے ہیں وہ بعد میں بھول جاتے ہیں،اب اس مسئلہ کا سامنا سارے ماں باپ کرتے ہیں لیکن اس کا حل تلاش کرنے کے لئے وہ لوگ آگے آتے ہین جن کے پاس نہ بات کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے نہ مسئلہ کو سمجھانے کی صلاحیت ہوتی ہے،وہ صرف رسپشن پر آکر زور زور سے چلا کر اپنا پرابلم الٹا سیدھا سنانا شروع کرتے ہیں،یہ لوگ ان لوگوں سے الجھتے ہیں جن کے پاس ان کا حل نہیں ہوتا ہے۔کبھی میڈیا کی دھمکی ،کبھی پولیس کی دھمکی ،کبھی کسی لیڈر سے جان پہچان ہونے کی اطلاع دے کر اپنا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں جو کہ غیر معقول ہے اس کے نتیجہ میں صرف غصہ آتا ہے لیکن حل کچھ نہیں نکلتا ،جو ماں باپ سمجھدار ہیں وہ اپنے بچوں کے مسائل کو اچھی طرح متعلقہ لوگوں کے سامنے رکھ سکتے ہیں لیکن وہ آگے نہیں بڑھتے ہیں۔ آخرکار مسئلہ جہاں کا وہاں ہی رہتا ہے پھر مایوسی چھا جاتی ہے۔
لوگ مدارس والوں سے بھی مایوس نظر آتے ہیں لیکن یہ صرف دور رہ کر مایوسی کا اظہار کرتے ہیں،کچھ روشن خیال قلمکار جن کی تعلیم انگریزی میں ہوتی ہے،وہ اپنے آپ کو بہت ہی دانا سمجھتے ہیں،وہ بار بار مسلمانوں کی پسماندگی کا ذکر کرتے ہیں،یہ لوگ بار بار مدارس اور علماء کے خلاف اخبار میں آرٹکلس لکھتے ہیں لیکن کبھی مدارس کا دورہ کر کے یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان کا اصل مسئلہ کیا ہے ،ان لوگوں کو کس طرح کی رہنمائی ضرورت ہے ان کی خوبیاں کیا ہیں،یہ کتنی محنت کرتے ہیں،یہ کتنے کفایت شعار ہوتے ہیں،کتنے صبر والے ہوتے ہیں،کتنے ناگوار حالات میں بھی ثابت قدم رہتے ہیں ،ان نام نہاد روشن خیال دانشمندوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا ہے ،نہ ہی جاننے کی کوشش کرتے ہیں،یہ صرف اپنی ایرکنڈیشنڈ آفس میں بیٹھ کر آرمدہ کرسی پر سسٹم کے سکرین پر علماء ومدارس کی نااہلی کا انگریزی میں رونا روتے ہیں ۔ان کے آرٹیکلس پڑھ کر سارا معاشرہ ان داشمنوں کی داد دیتا ہے اور مدارس وعلماء سے مایوس ہوجاتا ہے۔جو لوگ مدارس کو اچھی طرح جانتے ہیں ان کی محنتون سے علماء سے واقف ہیں ان کی محنتوں سے واقف ہیں اور ان کی خامیوں کی اصلاح کر سکتے ہیں لیکن وہ بے چارے خاموش رہتے ہیں ،نتیجہ میں پھر مایوسی چھا جاتی ہے۔
اسی طرح مساجد والوں کا بھی مسئلہ ہے اگر مساجد سے اچھا کام ہورہا ہے تو ٹھیک سے ان ہمت افزائی بھی نہیں کرتے ہیں اگر کچھ غلطیاں ہوجائین تو پیٹھ پیچھے صرف تنقید کرتے ہیں، سامنے بیٹھ کر اصلاح نہیں کرتے ہیں،کچھ ذمہ داران ایسے سخت مزاج یا بد اخلاق ہوتے ہیں کوئی بھی ان سے بات ہی کرنا پسند نہیں کرتا ہے بلکہ جو بھی ہوتا رہے صرف آنکھ بند کرکے گزر جاتے ہیں۔کچھ ذمہ داران اچھا کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے کام میں کمی بیشی ہوتی ہے ، تو کچھ لوگوں کا کام صرف تنقید کرنا ،کیڑے نکالنا ،کام میں رکاوٹ بننا ہوتا ہے،وہ صرف تنقید کرنا جانتے ہیں اس سے اچھا کیا ہوسکتا ہے ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہوتا ہے،وہ صرف تنقید کرنا جانتے ہیں اس کے علاوہ ان کو کچھ نہیں آتا ہے ۔
الغرض معاشرہ کے ہر طبقہ سے بڑی بڑی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں لیکن ان کی رہنمائی ،ان کی خیر خواہی ،ان کے ساتھ ہمدردی ، ان کے مسائل کو جاننا ،ان کے مسائل کو حل کرنے میں مدد کرنے کا کوئی شعور نہیں ہے۔تنقید کرنا بہت آسان ہے،امید لگانا بہت آسان ہے،نااہل قرار دینا بہت آسان ہے،غلط کہہنا بہت آسان ہے،جس پر ہم تنقید کرتے ہیں ان کے ساتھ کھڑے ہونا ان کا ساتھ دینا ان کے مشکلات میں شامل ہوکر حل نکالنا یہ مشکل ہے،مسلمانوں پر تنقید کرنا آسان ہے اسی لئے سب لوگ تنقید کرتے ہوئے اپنے آپ کو دانشوروں کی صف شامل کرنا چاہتے ہیں۔ان کے کندھوں سے کندھا نلا کر چلنا ان کے مسائل کو حل کرنا مشکل کام ہے اس لئے کوئی بھی اس میں آگے آتا ہوا نظر نہیں آتا ہے۔