ماہ رمضان سے ملک کو کیا فائدہ ہے؟
ماہ رمضان امن وسلامتی کی پیام لاتا ہے،ماہ رمضان میں بھائی چارا پیدا کرتا ہے،ماہ رمضان میں ایک دوسرے کی مدد کی جاتی ہے،بھوکوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے ،صدقہ وخیرات کا ایک لمبا سلسلہ جاری رہتا ہے،ہر صاحب نصاب مسلمان زکات کی ایک بڑی رقم نکالتا ہے،جو ملک کی معاشی بد حالی کو دور کرتی ہے ۔اناج کا ایک بڑا حصہ غرباء ومساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ماہ رمضان ایک ایسا مہنہ ہے جس میں خرچ کیا جانے والا ہر ایک روپیہ کسی نہ کسی کے کام آتا ہے ۔
ماہ رمضان میں ہونے والی تجارت سے ،تاجر حضرات پورا سال آرام سے بیٹھ کر کھا سکتے ہیں۔ماہ رمضان میں ایسا کوئی تاجر نہیں ہے جو یہ کہے کہ اس کے سامان کی ضرورت نہیں ہے۔بازار کا ہر سامان اس ماہ میں فروخت ہوتا ہے۔ماہ رمضان سے ہر تاجر خوش رہتا ہے ۔ہر تاجر کو فائدہ ہوتا ہے،ہر تاجر کا خاندان خوش رہتا ہے۔ماہ رمضان ایک ماہ مسلسل چلتا ہے لیکن کبھی پولس ڈپارٹ منٹ کے لئے درد سر نہیں بنتا ۔کبھی حکومتی کارندوں کے لئے چیلنج نہیں بنتا ۔
ماہ رمضان میں چور بھی چوری سے رک جاتا ہے،شرابی شراب سے رک جاتا ہے،قتل وغارت گری سے بچ جاتا ہے۔بدکاری رک جاتی ہے ،گناہوں کا ایک لمبا سلسلہ جو کہ سماج کے لئے خطرہ ہے ،رک جاتا ہے۔سماج اگر پرامن ہے تو ملک بھی پرامن ہوگا ۔ماہ رمضان سماج کو بہتر بنانے آتا ہے،الفت ومحبت پیدا کرنے آتا ہے۔جھوٹ وفریب سے روکنے آتا ہے۔مکاری وعیاری سے روکنے آتا ہے۔یہ ماہ رمضان دنیا کے سارے ملکوں کے لئے رحمت بن کر آتا ہے ۔
لیکن افسوس ہے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس میں فسطائی طاقتیں ہمیشہ نفرت کے بیج بوتے رہتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام اور مسلمانوں سے اس ملک کو جتنا فائدہ ہے اس کا دس فیصد بھی یہ فسطائی طاقتین اس ملک کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی ہیں،ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان کے کونسے کاموں سے ملک کو فائدہ پہنچ رہا ہے؟سماج میں نفرت پھیلانے سے اس ملک کو نقصان کے سوا کیا مل رہا ہے؟
،کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ایک بہتر سماج بہت ضروری ہے ،بڑی سے بڑی تعلیم گاہیں،بہتر سے بہتر حکومت، بڑی بڑی ڈگریاں جن میں کوئی تربیتی پہلو نہ ہو،،کچھ نہیں کر سکتے، ان بہت ساری کمیوں کو ایک اچھا سماج ہی پورا کر سکتا ہے۔ رمضان ایک ایسا مہنہ ہے جو ایک بہتر سماج کی تشکیل دے سکتا ہے۔
مورخ کی نظر ہمیشہ سماج پر ہوتی ہے حکومتوں پر نہیں،حکومتیں دو چار سال میں بدل جاتی ہیں،عدالتوں میں کام کرنے والے جج بدل جائیں گے،نفرت پھیلانے والے لیڈر مٹتے جائیں گے، اب تک آزادی کے بعد سپریم کورٹ کے 42 ججس بدل چکے۔14 وزیر اعظم بدل چکے،15 صدر جمہوریہ بدل چکے یہ سارے لوگ آئے اور چلے گئے لیکن جو چیز ہمیشہ رہنے والی ہے وہ ہے بہتر سماج،اور اسلام اس کی پوری ضمانت دیتا ہے،وہ شراب سے روکتا ہے،بدکاری سے روکتا ہے،سود سے روکتا ہے،چوری سے روکتا ہے،ڈکیتی سے روکتا ہے،ایمانداری سکھاتا ہے،یہ پروگرام اس کا صرف سال میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ ہر دن پانچ مرتبہ یاد دلاتا ہے،ہفتہ میں ایک مرتبہ جمعہ کے دن یاد دلاتا ہے،ایسے افراد تیار کرتا ہے،جو دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھیں،دوسروں کے غم کو اپنا غم سمجھیں،دھوکہ دہی سے پاک،جھوٹ سے پاک ،سماج کی تشکیل کے لئے مفت میں کام کرتا ہے،کیا فسطائی طاقتیں یہ کام کر سکتی ہیں ؟
ہندوستان کی 11 زبانوں میں لگ بھگ 96 نیوز چینلس چلتے ہیں،سماج کی سدھار کے لئے کیا رول ہے،سوائے انٹر ٹینمنٹ اور اڈوٹائزمنٹ کے علاوہ کیا نظر آتا ہے؟ میڈیا یا تو کسی سیاسی لیڈر کی پراپرٹی ہے،یا پھر ایک کاروبار بن چکا ہے۔
ہمارے ملک میں صبح کا سورج بعد میں طلوع ہوتا ہے اس سے پہلے ہندوستان کی سرزمین پر لگ بھگ 200 اخبارات چھپ کر باہر نکلتے ہیں TIMES OF INDIA صبح کے 10 بجنے سے پہلے 32 لاکھ لوگوں تک پہچا دیا جاتا ہے،فسادات کی مذمت کب کی جاتی ہے کب لوگوں کو انسانیت کا درس دینگے،آٹے میں نمک کی طرح گاہے بگاہے سماج دشمن لیڈروں کے خلاف بات ہوتی ہے۔
200 سے زائد انٹر نیشنل لیول کے صحافی ہیں ان میں کتنے لوگ فسادات کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں،کتنے لوگ نفرت کے خلاف لکھتے ہیں،کتنے لوگ نفرت کو پھیلانے والوں کی مذمت کرتے ہیں ،بالکل نہ ہونے کے برابر ہے،آج تمام مضمون نگاروں کو،ادیبوں کو،شاعروں کو،دانشوروں کو صحافیوں کو ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو چاہئے کہ شہر شہر ڈگر ڈگر، نگر نگر یہ بات عام کریں کہ ہر انسان کو جینے کا حق ہے،تمام انسانوں کا خون ایک ہی ہے رنگ ایک ہے روپ ایک ہے،آنکھوں کا پانی ایک ہے،دل کا درد ایک ہے،پھر کیوں ایک دوسرے کی جان لینے پر تلے ہوئے ہیں،حقیقت میں یہی چیز ملک کے لئے خطرہ ہے۔ماہ رمضان ایسے ہی لوگوں کی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ ہے ۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 3 / 5. Vote count: 2

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply