ماں کے پیٹ سے ہی تربیت کا آغاز ہوتا ہے

ایک بچے کی تربیت کا عمل   ماں کے پیٹ سے ہی شروع  ہوجاتا ہے۔جب بچہ ماں کے پیٹ میں پرورش پاتا ہے اسی دوران  خاتون  پر اللہ کی شکر گزاری لازم ہے۔ حاملہ خاتون کو  اچھی  نیت، اور خوش  دلی  کے ساتھ اس ڈیوٹی کو انجام دینا چاہیے۔ ایک سچی ایمان والی  عورت یہ تکلیف کا  زمانہ مصیبت سمجھ کر نہ گزارے، بلکہ ان تکالیف کو  صبر کے ساتھ  برداشت کرے۔ اس زمانے میں وہ اللہ تعالی کی خصوصی نظر رحمت میں ہوتی ہے ۔ ایک حاملہ عورت  کو نماز عام عورت کے مقابلے میں بہت دھیان اور اخلاص کے ساتھ  ادا کرنا چاہئے ۔ حاملہ عورت اگر رب کریم کی فرماں بردار ہے اور اس کا دل  اپنے رب سے لگا  ہوا ہے  پیٹ مین پلنے والے بچے پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

باپ کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پاکیزہ اور صالح کردار پر اٹھانے کے لئے گھر میں ایسی کمائی لائے جو حلال اور پاک ہو۔ اپنی اولاد کو اگر حرام کمائی سے  پرورش کی گئی  تو اس کے کردار و اعمال میں شرافت  پیدا نہیں ہوسکتی ۔

ہمیشہ  اللہ کا ذکر، نماز کی پابندی، باوضو رہنا، پاکیزہ باتیں  کرنا ، جسمانی، روحانی اور ذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ ہر وہ غذا جو حاملہ عورت کھاتی ہے، اس میں اس ننھی سی جان کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اس زمانے میں اگر جسمانی غذا معمول سے زیادہ درکار ہوتی ہے تو روحانی غذا  بھی تو پہلے سے زیادہ چاہیے۔۔۔۔۔

ماہرین نفسیات سفارش کرتے ہیں کہ والدین اپنے آنے والے بچے کو جیسا بنانا چاہتے ہیں، ماں کو اسی کی طرف  زیادہ دھیان لگانا  چاہیے۔ جس لائن پر لگانا چاہتے ہیں، جس مضمون یا فن کا ماہر بنانا چاہتے ہیں، ماں کو بھرپور اسی کی توجہ دینی چاہیے اور ویسے ہی ماحول میں رہنا چاہیے۔

ایک مسلمان ماں اپنے بچے کو “ایک کامیاب  مسلمان” بنانا چاہتی ہے  تو وہ ضرور ان سب کاموں  کا خیال رکھے جن کا ہمارے اسلاف رکھتے تھے۔ بزرگان دین کی مائیں اکثر و بیشتر قرآن پاک کو ہر وقت ورد زبان رکھتی تھیں۔ آج بھی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ جب ماں نے مدت حمل میں ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت سنی،  اور ایک ہی قاری کی زبان، لب و لہجہ تلفظ  میں کثرت سے قرآن سنا تو اس کا اثر یہ ہوا کہ  پیدا ہونے والا بچہ  قرآن کی تلاوت کو حیرت انگیز دلچسپی سے سنتا اور جب قرآن سیکھنے کی عمر ہوئی تو حیرت انگیز طور پر بہت جلد سیکھ گیا۔

ایک ذمہ دار اور حساس مسلمان ماں وہ ہے، جو زمانہ حمل میں متقی خواتین کے ساتھ رہے، قرآن و حدیث کا   مطالعہ کرے، قرآن پر غور و فکر کرے نیک کاموں مین وقت لگائے۔ اپنی  دوسری  ذمہ داریوں کو بھی اللہ تعالی کی  خوشی کے لئے انجام دے۔ یہ آزمائی ہوئی بات ہے کہ  اچھے کاموں  میں شامل ہونے والی خواتین نے اس بچے کی عادات میں  بہت بڑی تبدیلی محسوس کی ہے۔

ماں بننے والی خاتون کو شعوری طور پر  صبر و قناعت اور قوت برداشت  پیدا کرنا چاہیے۔ برے اخلاق  مثلاً بغض، کینہ، حسد، تکبر اور جھوٹ سے بچنے کی کوشش کرے۔ ذکر واذکار  کو اپنا معمول بنائے۔

جسمانی غذا کے ساتھ روحانی غذا بھی  زیادہ مقدار میں ہونی چاہیے۔ نیک وصالح  کردار کی  ماں ہی اپنے بچے کے روشن مستقبل کی فکر کر سکتی ہے۔ کم ظرف، جھگڑالو، حاسد، احساس برتری گھمنڈی ، ناشکری اور بے صبری عورت، ایک اچھے  مسلمان کو پیدا نہیں کر سکتی۔

جسمانی صحت و صفائی کے ساتھ ساتھ ماں کو روحانی  صفائی بھی  کا خیال رکھنا  ضروری ہے۔ باوضو رہنا،  کھانے سے پہلے  بسم اللہ پڑھنا  چاہئے۔

 اس غیر معمولی صورت حال میں شوہر کی بھی ذمہ داریاں غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں۔ اس لئے خاتون کی ذہنی، جسمانی، روحانی طمانیت کے لئے شوہر کو بھرپور طریقہ سے اپنا کردار انجام دینا چاہیے۔ یہ شوہر کا فرض عین ہے جس کی اس سے باز پرس ہو گی۔ دیگر رشتہ دار اور شوہر ایک نئی ہستی کو دنیا میں لانے کے لئے عورت کو جتنی آسانیاں، آرام، ذہنی و جسمانی سکون مہیا کریں گے تو وہ بھی لازماً اس کا صلہ اللہ تعالی کے ہاں پائیں گے۔

شوہر کے ساتھ ساتھ ساس کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی بہو کو کسی قسم کا ٹنشن نہ دے ،طنز والی باتیں ،دل جلانے والی باتیں ،دل کو توڑنے  والی  باتیں ،لڑائی جھگڑے والی باتوں سے پرہیز کرے ۔اپنی بہو کو پرسکون ماحول فراہم کرے ۔تبھی چل کر اس کے  آنے والے پوتا پوتی   تندرست اور صحت مند ہوں  گے ان شا ءاللہ ۔اسی طرح  گھر میں اگر نند ہوتو وہ بھی بھرپور ساتھ دے ،اس کی مدد کرے ،کسی قسم کی لڑائی جھگڑے والا ماحول پیدا نہ کرے ۔ایک ڈاکٹر کی بھی ذمہ داری ہے وہ غیر ضروری ٹسٹوں کے چکر میں نہ ڈالے ،غیر ضروری  نہ ڈرائے ،غیر ضروری دوائیں نہ دے ۔غیر ضروری آپریشن کے لئے مجبور نہ کرے ۔غیر ضروری    دوائی نہ لکھے ۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 4.6 / 5. Vote count: 14

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply