قربانی کے احکام ومسائل

قربانی کے احکام ومسائل
سوال1: کیا قربانی کا حکم قرآن وسنت میں موجود ہے؟
ج: جی ہاں اس کی ترغیب قرآن وحدیث میں موجود ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴾[ الکوثر : 2] ترجمہ : ’’پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔‘‘
سنن ابو داؤد اور ابن ماجہ میں روایت ہے مخنف بن سلیم فرماتے ہیں ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس عرفات کے میدان میں ٹھہرے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا :] ’’ اے لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ہے‘‘۔سنن ابی داود رقم حديث2788)
سوال2: قربانی کاشرعی حکم کیا ہے؟
ج: جمہورِ اہل علم کا یہی موقف ہے کہ قربانی سنتِ مؤکدہ ہے۔ یہی وجہ ہے امام ابن حزم فرماتے ہیں:
’’ قربانی کا واجب ہونا کسی ایک صحابی سے بھی ثابت نہیں ہے ،نبی اکرم ﷺ کا اس سنت پر ہمیشگی اختیار کرنا، سفر میں بھی قربانی کرنا، اور صحابہ میں قربانی کے جانور تقسیم کرنا ان امور سے اس عمل کی تاکید ثابت ہوتی ہے۔ یعنی یہ ایک مؤکد سنت ہے۔[ فتح الباری شرح بخاری ۔
اس بارے میں ایک مرفوع روایت ابو ہریر ہ tسے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والا ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ سنن ابن ماجه حديث رقم3125،
سوال3 : کیا قربانی کے لیے صاحبِ نصاب ہونا شرط ہے؟
ج: قربانی کے لیے صاحبِ نصاب ہونا ضروری نہیں اس کی دلیل جناب عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے:
] رسول اللہ ﷺ اپنی پوری زندگی میں قربانی کرتے رہے ۔”.[ سنن الترمذی حديث رقم:1507، اور یہ امر محتاجِ بیان نہیں کہ آپ صاحبِ نصاب نہیں تھے‘‘۔]
سوال4 : قربانی کرنے والے پر شرعا کن امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے؟
ج: قربانی کرنے والا ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد ناخن نہ کتروائے اور حجامت وغیرہ نہ بنوائے یہاں تک کہ وہ قربانی کرے۔[ صحيح مسلم حديث رقم:1977۔
سوال 5: کیا ایک قربانی ایک گھر کی طرف سے کفایت کرجائے گی؟
ج: جی ہاں! جناب ابو ایوب tسے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگ قربانیاں کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے جواباً فرمایا:
ایک آدمی اپنے پورے گھر والوں کی طرف ایک بکری قربان کرتا تھا ‘‘۔سنن الترمذی: حديث رقم:1505۔]
سوال6: کیا ہر حلال جانور کی قربانی درست ہے؟
ج: ہر حلال جانور کی قربانی درست نہیں اس حوالے سے روایات مین جن جانوروں کا ذکر ہے اسی پر اکتفا کیا جائے۔ مثلا اونٹ ، گائے، بیل ، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ۔
سوال7: قربانی کے جانور میں کن عیوب سے بچنا ضروری ہے؟
ج: براء بن عازب tفرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں، یک چشم جس کا یک چشم ہونا بالکل صاف طور پر معلوم ہو، بیمار جس کی بیماری واضح ہو، لنگڑا جس کا لنگڑا پن نمایاں ہو،اور ایسا بوڑھا کہ اس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو‘‘۔سنن النسائی: حديث رقم:4369۔]
سوال8: اونٹ اور گائے میں کتنے افراد شریک ہوسکتے ہیں؟
ج: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کے ساتھ سفر میں تھے عید الاضحی آئی تو ہم نے قربانی کی گائے میں سات لوگ شریک ہوئے اور اونٹ مین دس لوگ۔ مسند احمد: رقم الحديث:2484]
سوال9: حلال وحرام ہونے کے اعتبار سے حاملہ جانور کے بچے کا کیا حکم ہے ؟
ج: اس بارے میں جناب ابو سعید خدری tسے روایت ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “”. پیٹ میں موجود بچے کا حلال ہونا اس کی ماں کو ذبح کرنے سے حاصل ہوگا ؛سنن الترمذی رقم الحديث:1476]۔ مذکورہ حدیث کی روشنی میں واضح ہوا پیٹ میں موجود بچہ ہر حال میں حلال ہے۔
سوال10: حاملہ جانور کی قربانی لا علمی میں صحیح ہے یا اس کے حاملہ ہونے کے علم کے بعد بھی صحیح ہے؟
ج: اس کے حاملہ ہونے کا علم ہوجائے پھر بھی اس کی قربانی صحیح ہے۔ اس کی دلیل مذکورہ روایت کے الفاظ کی صراحتًا دلالت ہے یعنی “ذکاة الجنين ذکاةأمه”.پیٹ میں موجود بچے کا حلال ہو نا اس کی ماں کو ذبح کرنے سے حاصل ہوگا۔
سوال11: کیا قربانی کے ایام میں قربانی صرف دن کو کی جاسکتی ہے یا رات کو بھی کی جاسکتی ہے؟
ج: حدیث مبارکہ میں ایام ذبح کا جو ذکر آیا ہے اس میں دن اوررات دونوں کو شامل ہے رات کو قربانی نہ کرنے کے حوالے سے جو روایت “نهیٰ عن الذبح بالليل”.’’ کہ رسول اللہ ﷺ نے رات کو ذبح کرنے سے منع فرمایا ‘‘۔
یہ روایت سنداً صحیح نہ ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں ہے۔ جیساکہ علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں وضاحت کی ہے۔
سوال12: خصی جانور کی قربانی کا کیا حکم ہے ؟ کیا یہ بلا کراہت جائز ہے یا بمع کراہت ؟ ۔
ج: جابر بن عبد اللہ tسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو مینڈھے لائے گئے جو سینگ دار چتکبرے اور خصی والے تھے۔ ثابت ہوا خصی جانور کی قربانی بلا راہت جائز ہے‘‘۔ سنن ابی داود رقم الحديث:2795]
سوال13: اجتماعی قربانی کے معاملے کو اگر ایک کاروباری شکل میں رواج دینے کی کوشش کی جائے تو اس میں شرعاًً کوئی قباحت تو نہیں؟
ج: جس طرح جانور خرید کر بیچنا صحیح ہے اور منافع کمانا درست ہے اس طرح اس مسئلہ میں بھی لوگوں کو سہولت مہیا کرکے منافع کمانا گناہ نہیں البتہ ہر قسم کی دھوکہ دہی و کذب بیانی سے احتراز کرناضروری ہے ۔
سوال14: قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت کن امور کا لحاظ رکھا جائے؟
ج: قربانی کے جانور کو گھسیٹ کر ذبح کرنے کی جگہ نہ لایا جائے۔ اور اسے تیز چھری کے ساتھ ذبح کیا جائے۔ ذبح سے قبل اسے پانی پلانا۔ جانور کو قبلہ رخ لٹا کر ذبح کرنا۔ یہ امور صحیح مسلم’’کتا ب الصيد والذبائح‘‘میں موجود روایت سے ثابت ہوتے ہیں۔ شداد بن اوس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم جانور کو ذبح کرو ت عمدگی سے ذبح کرو اور ذبح کرنے والا اپنی چھری کو تیز کرے اور اپنے جانور کو آرام پہنچائے۔ صحيح مسلم؛ رقم الحدث:1955]
سوال15: اجتماعی قربانی کے حوالے سے اس کا اہتمام کرنے والے اداروں کو کن امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے؟
ج: معاملہ انفرادی قربانی کا ہو یا اجتماعی قربانی کا مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھا جائے:
قربانی کرنے والا صحیح العقیدہ ہو۔
نماز کا پابند ہو۔
حرام کاروبار نہ کرتاہو یعنی اس کا کسب حلال ہو
سوال16: ذبح کرتے وقت اجتماعی قربانی میں شریک افراد کا نام لینا اور ان کی حاضری ضروری ہے؟ یا نامزدگی کفایت کرجائے گی؟
ج: ذبح کرتے وقت شریک افراد کا نام لینا ضروری نہیں نامزدگی ہی کافی ہے۔اور ان کی موجودگی بھی ضروری نہیں۔ اس سلسلہ میں ایک روایت جو نقل کی جاتی ہے کہ تمام شریک افراد ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑیں اور آخری ساتواں شخص چھری چلائے۔ یہ روایت سنداً صحیح نہیں ہے۔ بلکہ کئی روایات میں گائے میں سات افراد اور اونٹ میں دس افراد کی شرکت کا ذکر آیا ہے۔ ان روایات کا تقاضہ یہ ہے کہ نامزدگی کفایت کرجائے گی البتہ نام لینا مستحب ہے۔ والله أعلم بالصواب۔
سوال17: اجتماعی قربانی میں شریک افراد کو حصہ اس قربانی کے جانور سے دیا جائے جس میں اس کی نامزدگی تھی یا کسی دوسرے جانور سے اسے حصہ دیا جاسکتا ہے ؟ اس میں صحیح صورت کیا ہے؟
ج: اجتماعی قربانی میں شریک افراد کو حصہ اس قربانی کے جانور سے دیاجائے جس میں اس کی نامزدگی تھی یہی بہتر اور زیادہ احواط ( احتیاط کے قریب تر ) ہے۔
سوال18 : کیا قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنا گناہ ہے؟
ج: قربانی کا گوشت ذخیر کرنا گناہ نہیں ۔ بلکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہےکھاؤ کھلاؤ اور ذخیرہ کرو ‘‘ صحيح بخاری : رقم الحديث:5569۔] ۔ مزید آپ ﷺ کا فرمان ہے: میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے سے منع کیا تھا لیکن اب جتنا ذخیرہ کرنا چاہو کرسکتے ہو‘‘۔سنن ابن ماجه رقم الحديث:3160۔]
سوال19: بعض لوگ معاشی تنگدستی کے سبب قربانی کے گوشت کو ذخیرہ کرکے بیچتے ہیں یا پکا کر بیچتے ہیں ایسا کرنا شرعا کیسا ہے؟
ج: شرعا اس عمل میں کوئی قباحت نہیں ہے جب کوئی چیز کسی مسلمان کو ہدیۃً دی جاتی ہے تو پھر وہ اس کا مالک ہوجاتا ہے پھر وہ اپنے اختیار سے اسے صرف کرسکتا ہے۔
سوال20: کیا خواتین اپنے قربانی کے جانور پر چھری پھیر سکتی ہیں؟
ج: مسلمان خاتون کا اپنی قربانی کے جانور پر چھری پھیرنا صحیح ہے۔
امام بخاری نے ابو موسیٰ اشعری tکے حوالے سے لکھا ہے [ کہ ابو موسیٰ اشعر ی نے اپنی بیٹیوں کو حکم دیتے کہ وہ اپنی قربانیاں خود ذبح کریں‘‘۔فتح الباری شرح صحيح بخاری
سوال21: قربانی سے قبل [ بسم الله والله أکبر ] پڑھنا بھول گئے تو قربانی ہوجائے گی یا نہیں ہوگی
ج: جی ہاں! بھولنے کی صورت میں قربانی پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ البتہ بحکم باری تعالیٰ:”فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ “.[ الأنعام: 118]
نیز فرمایا:” وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ “.[ الأنعام: 121]کے تحت ذبح کرتے وت قصداً بسم اللہ واللہ اکبر نہ پڑھنے سے قربانی نہیں ہوگی۔
سوال 22: قربانی کا گوشت کس طرح تقسیم کیا جائے؟
ج: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: “فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ “.[ الحج: 36] یعنی تم خود بھی کھاؤ اور قانع جو طلب نہیں کرتا ضرورت مند نہیں ہے اس کو بھی دو اور معتر جو ضرورت مند ہے مانگنے والا ہے اس کو بھی دو۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: “کلوا واطعموا وادخروا”. یعنی کھاؤ کھلاؤ اور ذخیرہ کرو ۔
سوال23: سفر میں قربانی کرنا؟
ج: سفر میں قربانی کرنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ جیساکہ ثوبان سے رایت ہے کہ “ضحی رسول الله صلى الله عليه وسلم فی السفر”.] سنن ابی داود،رقم الحديث:2814)
] ’’یعنی رسول اللہ ﷺ نے سفر میں قربانی کی‘‘۔ لہٰذا کوئی اس سنت پر مسافر ہونے کی صورت میں عمل کرتا ہے تو صحیح ہے۔
ویسے قربانی کرنا اس حالت میں اس پر لازم نہیں ہے۔
سوال24: قربانی کی کھال کا مصرف؟
ج: قربانی کی کھال قصاب کو اجرت میں دینا منع ہے، البتہ اسے ذاتی مصرف میں لانا صحیح ہے یعنی اس کا مصلی ، مشکیزہ یا جوتے بنانا صحیح ہے۔ اسی طرح دینی اداروں میں دینا ، مساکین وبیواؤں کو دینا بھی صحیح ہے۔
سوال25: کیا وہ جانور جس کا گوشت کھایا جاتا ہے اس کی بعض چیزیں کھانے کے حوالے سے مکروہ ہیں؟
ج: حنفیہ نے مأکول اللحم جانور کی بعض اشیا ء پر کراہت کا حکم لگایا ہے۔ مثلا بدائع الصنائع میں خصیتین ، پتہ، مثانہ، نر ومادہ کے پیشاب کی جگہ۔
ان مذکورہ اشیاء میں سے کسی کی کراہت قرآن وصحیح حدیث سے ثابت نہیں اس بارے میں جو روایت نقل کی جاتی ہے وہ انتہائی ضعیف ہونے کے سبب قابل استدلال نہیں۔