سورج اور چاند گہن میں کیا کریں؟

ماہرین فلکیات کے مطابق  آج 21 جون  صبح  9:30 تا دوپہر 3 بجے سورج گہن لگنے والا ہے ۔ سورج اور چاند گرہن کےبارے میں معاشرے میں بہت ساری غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں،۔ کہیں تو سورج گرہن کا نظارہ کرنے کے لئے پارٹیاں منعقد کی جاتی ہیں تو کہیں اس دوران حاملہ خواتین کو کمروں میں بند کر دیا جاتا ہے اور انہیں چھری، کانٹے وغیرہ کے استعمال سے روک دیاجاتاہے تاکہ بچے پیدائشی نقص سے پاک پیداہوں۔لیکن یہ بات یاد  رکھیں   سورج یا چاند گہن کے پس منظر میں حاملہ خواتین   کو نقصان پہنچنے اور عیب والے بچے پیدا ہونے کے خدشات بے بنیاد ہیں ۔

رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں جب سب سے پہلا سورج گرہن ہوا اتفاق سے اسی دن آپ ﷺ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ لہذا لوگ کہنے لگے کہ سورج گرہن آپﷺ کے بیٹے کی وفات کی وجہ سے ہوا ہے۔ حضورﷺ نے اس ضعیف الاعتقادی کو ان الفاظ سے رد فرمایا:

إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَقُومُوا فَصَلُّوا

(صحيح بخاری: 1041)

سورج اور چاند کسی کے مرنے سے گرہن نہیں ہوتے۔ یہ تو قدرت الٰہی کی دو نشانیاں ہیں جب انہیں گرہن ہوتے دیکھو تو نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔

صحیح بخاری ہی کی ایک اور حدیث میں مرقوم ہےکہ آپﷺ نے فرمایا:

’’چاند اور سورج کا گرہن اللہ کی  قدرت کی نشانیاں  ہیں۔ کسی کے مرنے، جینے (یا کسی اوروجہ)سے نمودار نہیں ہوتے۔ بلکہ اللہ اپنے بندوں کو عبرت دلانے کے لئے ظاہر فرماتا ہے۔ اگر تم ایسے آثار دیکھو تو جلد از جلد دعا، استغفار اور یاد الٰہی کی طرف رجوع کرو۔‘‘ (صحیح بخاری : 1059)

لہذا جب ایسا معاملہ پیش آئے تو اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ اس نظارہ سے خوش  ہونے  یا  توہمات کا شکار ہونے بجائے  اللہ کے دربار میں حاضری دیں اور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں۔ کیونکہ سورج اور چاند گرہن اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ان كى ذریعے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو ڈراتاہے اور ان کے ذہنوں میں قیامت کا منظر تازہ کرتا ہے کہ اس دن سورج لپیٹ دیا جائے گا اور ستارے توڑ دئیے جائیں گے، سورج اور چاند جمع کردئیے جائیں گے، وہ دونوں بے نور ہو جائیں گے۔  رسول اللہ ﷺ سورج اور چاند گہن  پر عالم یہ تھا کہ آپ ﷺ گھبرا اٹھتے اور نماز پڑھتے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ جب سورج گرہن ہوا تو آپﷺ نے ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا:

أَنَّ الصَّلاَةَ جَامِعَةٌ

’’نماز (تمہیں) جمع کرنے والی ہے۔(تمہیں بلا رہی ہے۔)‘‘ (صحیح بخاری : 1045)

لوگوں کو   مسجد میں جمع کیا اور  بغیر اذان اور اقامت  کے نماز پڑھائی ۔

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ

نبی كريم ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھائی۔ آپ نے سورہ بقرۃ  کے برابر لمبا قیام کیا پھر لمبار رکوع کیا، پھر سر اٹھاکر تلاوت شروع کر دی ، پہلے قیام سے  چھوٹا قیام کیا، پھر پہلے رکوع سے  چھوٹا  رکوع کیا، پھر (قومہ کرکے) دو سجدے کئے ،

پھر کھڑے ہوکر پچھلے قیام سے چھوٹا  قیام کیا پھر پچھلے رکوع سے  چھوٹا رکوع کیا پھر پچھلے قیام سے  چھوٹا  قیام کیا پھر پچھلے رکوع سے  چھوٹا رکوع کیا ، پھر دو سجدے کیے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیرا۔ اتنی دیر میں سورج روشن ہوچکا تھا۔ پھر آپﷺ نے لوگوں کو وعظ بھی کیا۔ (صحیح بخاری : ١٠٥٢)

گرہن کی نماز کے طریقے میں اگرچہ اختلاف موجود ہے لیکن جمہور نے اسی طریقہ کو ترجیح دی ہے۔

نماز کسوف کا پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔

نما ز کسوف مسجد میں ہی ادا کی جائے گی۔اگر مسجد میں ممکن نہ ہوتو گھر میں بھی  پڑھی جاسکتی ہے۔

نماز کسوف کے لیے اذان و اقامت نہیں کہی جائے گی۔

نماز کسوف کا باجماعت ادا کرنا بہتر ہے۔

 چاند گہن ہو یا سورج گہن دونوں  میں قراء ت جہری ہو گی۔

پہلے رکوع کے بعد  جب دوبارہ شروع کریں صالح منجد نے  سورۃ فاتحہ  کی تلاوت کا تذکرہ نہیں کیا ،لیکن صالح عثیمین رحمہ اللہ نے سورہ فاتحہ کا تذکرہ کیا ہے ۔ہماری نظر میں  سورہ فاتحہ بغیر ہی تلاوت  شروع کیا جانا چاہئے ۔کیوں کہ حدیث میں پہلے رکوع کے  بعد جب کھڑے ہوں تو صرف قرآت کا ذکر ہے سورہ فاتحہ کی وضاحت نہیں ہے ۔

رکوع میں رکوع کی عام ثابت دعائیں ہی پڑھی جائیں گی۔

نماز کسوف کے بعد خطبہ دینا مسنون عمل ہے۔ رسول اللہ قیامت کا تذکرہ فرماتے ،جنت وہ جہنم کا ذکر کرتے ،آخرت کی یاد دہنی کرتے تھے ۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 1 / 5. Vote count: 1

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply