رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم لیڈروں کے ساتھ

لیڈر، باس اور قائد جیسی اصطلاحات اور ان اوصاف کی حامل شخصیات سے ہماراواسطہ شب و روز کا ہے۔ ان کی ایک تعلیم تو ہمیں مغرب سے ملتی ہے اور اس کا ایک نمونہ وہ ہے جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی سے ملتا ہے۔ ایک طرف جہاں یہ حقیقت ہے کہ مغرب کے وضع کردہ اصول خود اسلامی تعلیمات سے اخذ کردہ ہیں، وہیں یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں لیڈر شپ سےمتعلق جیسے بے مثال اصول و ضوابط موجود ہیں ویسے کہیں بھی نہیں۔ لیڈرشپ اورمینجمنٹ کے کچھ اوصاف فطری ہوتے ہیںاورکچھ کوسیکھ کرانسان اپناسکتاہے۔یہ تمام اوصاف وکمالات ہمیںحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورالہامی ہدایت کے اندرملتے ہیں۔ ہم لیڈر شپ کے چند اوصاف ذکر کرنے جارہے  ہیں:

1 لیڈرشپ نام ہے دلوںکو فتح کرنے کا۔ لیڈرکا ایک بڑا وصف یہ ہے کہ وہ لیڈرشپ کے لیے افراد تیار کرتا ہے۔ اس کی مثال حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کادور عمدہ مثال ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو ایسے بنایا کہ وہ خلیفہ اور گورنر کے عہدوں پر جا کر فائز ہوئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد تو دین کو ختم ہو جانا چاہیے تھا، کیونکہ مسلمانوں کا لیڈر وفات پا گیا تھا لیکن دین ختم نہیں ہوا، بلکہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسے لیڈر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے پیچھے چھوڑے تھے جنہوں نے پوری امت کو سنبھالا اور آگے لیڈرشپ کو تیار بھی کیا۔

٭…لیڈر شپ کی عمدہ ترین مثال حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کادور ہے ٭… لیڈرکے لیے ضروری ہے وہ عملی میدان میں آئے اوروہاںفیصلہ کرے، ڈرائنگ روم میں کیے گئے فیصلے چل نہیں سکتے ٭

2 ایک فرد کیسے عظیم ہوتا ہے؟ آدمی کے ذمے جو ذمہ داریاں عائد ہیں، ان کو اگر وہ احسن طریقے سے نبھا رہا ہے تو وہ شخص عظیم ہے۔ صرف عہدے کا مل جانا عظمت نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب رات کے وقت ایک عورت اور اس کے بچوں کے لیے کھانے کا سامان اپنے کندھوں پر رکھ کر لے جانا چاہتے ہیں تو غلام عرض کرتا ہے: ’’یا امیرالمومنین! میں حاضر ہوں۔ بوری میرے کندھوں پر رکھ دیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کیا قیامت کے دن میرا بوجھ تو اٹھائے گا؟‘‘ یہ ہے اپنی ذمہ داری کو نبھانا۔

3 کسی آدمی کو کوئی عہدہ مل جائے تو اس عہدے سے کوئی ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔ اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کرے۔ یہ شخص بھی عظیم ہے۔ اس کی بڑی عمدہ مثال حضرت سلیمان علیہ السلام کی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالی سے دعا کر رہے ہیں کہ اے اللہ! تو نے ہر چیز میرے تابع اور مسخر کر دی ہے، خود مجھے بھی تو اپنے تابع اور مسخر کر دے۔ یہ ہے اختیارات کا جائز اور صحیح استعمال۔ اس وصف کی بے شمار حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور اور سیرت میں مثالیں ملتی ہیں۔ 4

 لیڈر راستہ بھی دکھاتا ہے اور خود ساری قوم کے آگے ہوتا ہے۔ اس کی مثال حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا غزوہ خندق میں خود موجود ہونا اور پیٹ مبارک پر دو پتھر باندھناہے۔ لیڈرشپ کا یہ وصف بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت میں اعلی ترین درجے کا پایا جاتا ہے۔

5 لیڈر کی پہچان اور علامت اس کی ویلیو اور اقدار سے ہوتی ہے۔ لوگ اس کے تقوی اور دیانت کو مانتے ہوں۔ یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ آیا یہ لیڈر کیسا ہے؟ اس کو جاننے کے لیے ایک طریقہ تو یہ ہے کہ کوئی بات آپ معاشرے کے سامنے رکھیں۔ اس بات کو ماننے والے اور لینے والے کون افراد ہیں۔ ان کو دیکھا جائے۔ چوروں کا لیڈر اور سردار کیا کوئی نیک اور صالح شخص ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح نیک معاشرے کا لیڈر کوئی بد نہیں ہو سکتا۔ اس کی مثال حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کو لے لیں۔ اُس وقت یہ بھی مین آف ویلیو تھے۔

6 باس اور لیڈر میں بڑا فرق ہے، مثلا: کسی کام کے لیے باس کہتا ہے :’’جاؤ!‘‘ جب کہ لیڈر کہتا ہے: ’’آ ؤ چلیں۔‘‘ باس کہتا ہے :’’کام کرو‘‘، جبکہ لیڈر کہتا ہے: ’’آئیے! کام کرتے ہیں۔‘‘ اگر آپ کو  کام کروانا ہے تو انداز ایسا اختیار کریں جس کے اندر اجتماعیت ہو۔ اس کی مثال غزوہ خندق کے موقع پر خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل کر کام کیا۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے خود پہلے قربانی کی، اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کو کرنے میں کوئی تردد نہ رہا۔

7 لیڈر بننے کے لیے کسی پوزیشن کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ بہت سارے افراد پوزیشن کے ہوتے ہوئے بھی لیڈر نہیں ہوتے اور بہت سارے افراد پوزیشن کے نہ ہوتے ہوئے بھی لیڈر ہوتے ہیں۔ مثلا: ایک شعبہ ہے اس کا ایک منیجر ہے اور اس کے نیچے 10 افراد ہیں۔وہ جو 10 افراد ہیں اُن میں ایک فرد ایسا ہے جس کا رویہ، جس کے اخلاق و اوصاف اتنے اعلی اور عمدہ ہیں کہ وہ 9 افراد اس کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں۔ اپنی مشکلات اس سے شیئر کرتے ہیں۔ جس شخص سے آپ مشورہ کر سکتے ہیں اور اپنی مشکلات اس کے سامنے بیان کر سکتے ہیں۔ اصل میں تو وہی لیڈر ہوتا ہے۔

8 لیڈرشپ اورمینجمنٹ ڈرائننگ روم میں بیٹھ کر فیصلے کرنے کا نام نہیں ہے۔ لیڈرکے لیے ضروری ہے کہ وہ عملی میدان میںآئے اوروہاںفیصلہ کرے۔ جو لیڈر فیصلہ کر رہا ہے اس کو کم از کم ان عوامل اور اس کام کی مشکلات کا علم ہونا چاہیے۔ چاہے وہ آفس میںبیٹھ کر ہی کرےدور حاضر میں اگر کوئی لیڈر بننا چاہتا ہے تو وہ نبی کی سیرت کا ضرور مطا لعہ کرے ان شااللہ کامیاب وکامران لیڈر بن سکتا ہے-

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 0 / 5. Vote count: 0

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply