رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سماجی زندگی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سماجی زندگی

رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی سماجی زندگی ایک بہترین اور مکمل انسان کی زندگی ہے، جس کے اخلاق فاضلہ کی روشنی سے ہر دور کے انسانی سماج کو منور کیا جاسکتاہے، رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں کامل ایمان اس کاہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔“ آپ صلى الله عليه وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ”انسان حسن اخلاق سے وہ درجہ پاسکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر نماز پڑھنے سے ملتا ہے“ اخلاق کو اتنی اہمیت اس لیے دی گئی کہ انسانی سماج کی بہتر تشکیل اخلاقی خوبیوں کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے، خود آپ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ اخلاق کے بلند مقام پر تھی، قرآن نے کہا: ”اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ“ بے شک آپ اخلاق کے بڑے درجے پر ہیں۔

مساوات و برابری اور عدل وانصاف بہتر انسانی سماج کی تشکیل کیلئے ضروری ہیں۔رسول صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ میں مساوات اور انصاف کی روشن مثالیں ملتی ہیں۔ ایک مرتبہ قریش کی ایک خاتون چوری کے جرم میں پکڑی گئی، بعض عزیز ترین صحابہ نے اس کی سفارش کرنا چاہی تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کی نہ سنی، اور فرمایا: ”تم سے پہلے کی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں معمولی لوگ گناہ کرتے تھے تو ان کو سزا دی جاتی تھی اور جب بڑے لوگ کرتے تو ان کا جرم نظر انداز کردیاجاتا تھا۔“

مظلوموں کو مدد اور محتاجوں کی اعانت آپ صلى الله عليه وسلم کا شیوہ رہا ہے، مکہ مکرمہ کی زندگی میں جب ایک مظلوم نے مدد کے لیے خانہٴ کعبہ کے پاس فریاد کی تواس کی مدد کے لیے چند دیگر افراد کے ساتھ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم بھی کھڑے ہوئے، عبداللہ بن جدعان کے گھر میں انھوں نے باہم مشورہ کرکے ایک جماعت بنائی اور یہ عہد کیا کہ مکہ میں جس شخص پر بھی ظلم کیا جائے گا ہم سب اس مظلوم کی مدد کریں گے۔ یہ معاہدہ تاریخ میں ”حَلَفُ الْفُضُول“ کے نام سے سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے۔ ظلم کے خلاف متحد ہوکر آواز بلند کرنا اورمظلوم کو اس کاحق دلانا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو اس قدر محبوب تھا کہ مدنی زندگی میں بھی ایک بار آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کہ اگر مجھے آج بھی خلف الفضول میں بلایا جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔ سماج کے کمزور افراد کی خبرگیری اور مدد آپ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ کی روشن مثالیں ہیں۔ ایک صحابی حضرت خباب رضي الله تعالى عنه کسی لشکر میں گئے ہوئے تھے، ان کے گھر میں کوئی دوسرا مرد نہ تھا، اور عورتوں کو دودھ دوہنا نہیں آتا تھا، آپ صلى الله عليه وسلم روزانہ ان کے گھر جاکر دودھ دوہ آتے تھے، ۔ مکہ میں ایک بار قحط پڑگیا۔ اہل مکہ جو مسلمانان مدینہ کے جانی دشمن بنے ہوئے تھے، رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے ان کے ساتھ انسانی حسن سلوک کا اعلیٰ نمونہ قائم کرتے ہوئے مسلمانوں کی غربت وتنگدستی کے عالم میں بھی پانچ سو دینار جمع کرکے سرداران مکہ کو بھیجے کہ وہ قحط کے شکار لوگوں کی مدد کرسکیں۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی ذاتی اور گھریلو زندگی پرنظر ڈالی جائے تو وہ ایک عام انسان کی طرح روزمرہ کے کاموں اورہر دکھ درد میں شریک نظر آتے ہیں، بکری کا دودھ دوہ دیتے، خادموں کو ان کے کاموں میں مدد دیتے، بازار ے سودا خریدلاتے اور کوئی دعوت دیتا تو فوراً قبول کرلیتے تھے۔ سماجی تعاون اور خوشی و غمی میں شرکت کے لیے کوئی مذہبی رکاوٹ آپ کی راہ میں حائل نہیں تھی۔ ایک یہودی خاتون کی دعوت آپ نے قبول فرمائی، اوراس کا کھانا کھایا، اسی طرح ایک یہودی لڑکا بیمارہواتو آپ صلى الله عليه وسلم اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے، ایک بار نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ آیا، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے خود مہمانداری کی، اور وفد کے اراکین کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔ حق و انصاف کے معاملہ میں بلا تفریق مذہب ہر انسان آپ کی نظر میں برابر تھا۔ اگرکبھی اختلاف ہوتاتو ناحق کسی مسلمان کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔

ایک سماج کے لوگوں کے درمیان پُرامن بقائے باہم اور خوشگوار زندگی کا سب سے بہتر نمونہ اور اصول ”میثاق مدینہ“ کے نام سے ہمارے سامنے موجود ہے، رسول کریم صلى الله عليه وسلم جب مدینہ آئے تو وہاں کے مختلف قبائل اور اہل مذاہب کے ساتھ آپ صلى الله عليه وسلم نے معاہدہ فرمایا، یہی معاہدہ میثاق مدینہ ہے، اس کی دفعات کتنی مدبرانہ اور معقول ہیں، اس کا اندازہ ان کے الفاظ سے کیاجاسکتاہے۔

۱- سب لوگ ایک ہی قوم کے فرد سمجھے جائیں گے، یہودی مسلمانوں کے ساتھ ایک قوم ہے اور دونوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہوگی۔

۲- اگرمعاہدہ کرنے والے کسی قبیلہ پر کوئی دشمن حملہ آوار ہوگا تو تمام قبیلے ملک کر اس کا مقابلہ کریں گے۔

۳- شریک معاہدہ قبیلوں کے تعلقات خیرخواہی، نفع رسانی اور نیک اطواری پر مبنی ہوں گے، تاکہ جبر پر، اور خلاف اخلاق امور میں کوئی اعانت نہیں کی جائے گی۔

۴- یہودیوں اور مسلمانوں کو برابر حقوق حاصل ہوں گے۔

۵- مظلوم کی ہر حال میں مدد کی جائے گی۔ وغیرہ

میثاق مدینہ کی ان دفعات نے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ایک مشترک سماج کی تشکیل کا اصول فراہم کیا ہے، اور ان خطوط پر آج کے کثیر مذہبی، کثیر تہذیبی اور کثیرلسانی سماج کی تشکیل کی جاسکتی ہے۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی سماجی زندگی کے یہ وہ نقوش اور خطوط ہیں جن پر ہم اپنے موجودہ سماج کو استوار کرکے زندگی کو خوشگوار بناسکتے ہیں

۔ ہمارا سماج آج جن چیلنجوں کا سامنا کررہا ہے اورافراط و تفریط کی جن پریشانیوں سے دوچار ہے، ان کی نشاندہی کرکے ہر مسئلہ پر اگر ہم رسول صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ سے روشنی لینا چاہیں تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جائے گی کہ محسن انسانیت کی جامع سماجی زندگی نے اپنے وسیع دامن میں ان تمام مسائل کا حل سمیٹ رکھا ہے، اور حل بھی ایسا عادلانہ، منصفانہ، معقول ومعتدل کہ اس سے بہتر کوئی دوسرا حل سامنے نہیں آسکتا۔ خود غرضی اور مفاد پرستی کی موجودہ دور میں کتنی حق تلفیاں ہوتی ہیں،  ارشاد ہوتا ہے: ”تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ لوگوں کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے“ پوری انسانی برادری کی خیروفلاح کے لیے یہ کیسا زریں اصول ہے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا مزید ارشاد ہے: ”تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے“ نفع رسانی، خیر خواہی اور انسانی فلاح وبہبود کا جذبہ اصل مطلوب ہے،رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے کہ خیرخواہی کرو، اور دین خیرخواہی کا نام ہے، انسانوں کو نفع پہنچانے کے لئےمختلف  طریقے ہوسکتے ہیں، نفع اور خیروبھلائی کے ہر طریقے کو سراہا گیا ہے، کسی سے دو میٹھے بول کہہ دینا بھی صدقہ ہے، جس انسان کی زندگی ہمدردی سے محروم ہوچکی ہو اس کے لیے ہمدردی کے چند جملے کتنی قیمت رکھتے ہیں، کسی سے خوشدلی اور بشاشت کے ساتھ ملنا بھی صدقہ ہے، راستہ میں کسی تکلیف دہ چیز کو دیکھ کر اسے راستہ سے ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا بندوں پر رحم کرو،جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیاجاتا، تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ رحمت عالم کی یہ شان رحمت صرف انسانوں  تک محدود نہیں تھی، بلکہ انسانی سماج میں انسانوں کے ساتھ رہنے والے ہر جاندار کے لیے عام تھی۔ چنانچہ جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی گئی۔ جانوروں پر ظلم ہوتے دیکھ کر آپ صلى الله عليه وسلم نے سختی سے ممانعت فرمائی، بلاوجہ جانوروں کو پیٹنے، ستانے اور ٹھیک سے کھانا پانی نہ دینے پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے سخت تنبیہ فرمائی۔ ایک بار آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک اونٹ کو دیکھا تو اس کے مالک کو بلاکر فرمایا کہ اس جانور کے بارے میں اللہ  سے ڈرو، جس کا اللہ  نے تم کو مالک بنایا ہے۔ ایک دفعہ ایک صحابی نے چڑیا کے دو بچوں کو پکڑلیا، چڑیا اوپر منڈلانے لگی، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اس کے بچوں کو پکڑ کر کس نے اس کو بیقرار کیا، اس کے بچوں کو چھوڑ دو۔ ایک عورت کے بارے میں آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اس کو صرف اس لیے عذاب ہوا کہ اس نے بلی کو باندھ کر بھوکا رکھا تھا، رحمت عالم صلى الله عليه وسلم نے اس سلسلہ میں واضح کیا کہ جس طرح انسانوں کی ایذارسانی ایک شرعی جرم ہے اسی طرح جانوروں کی ایذا رسانی بھی گناہ ہے۔

انسانی سماج کا ایک اہم حساس اور تشویشناک مسئلہ ماحولیاتی آلودگی کا ہے اور اس کی تباہ کاریوں سے انسانی معاشرہ لرز رہا ہے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ میں اس سے متعلق اصولی ہدایت کیسی روشن ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان درخت لگائے گا اس سے جوانسان یا پرندہ بھی کچھ کھائے گا تو اس کا ثواب درخت لگانے والے کو ملے گا۔ ہرے بھرے درختوں کو کاٹنے سے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے دوران جنگ بھی منع فرمایا ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پانی کے بے جا خرچ کو روکنے کی ہدایت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی زندگی میں اتنی تھی کہ کہا گیا کہ اگر کوئی شخص ندی کے کنارے بیٹھ کر پانی کا استعمال کرے تو بھی وہاں ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کرے۔ عام راستوں اور گذرگاہوں پر کوئی گندی چیز پھینکنے، یا غلاظت کرنے کو آپ صلى الله عليه وسلم نے منع فرمایا، بلکہ راستوں سے کسی بھی نقصاندہ چیز کو ہٹانے کی تعلیم فرمائی۔ بازار کی اشیاء خوردنی میں ملاوٹ اور نفع خوری کے لیے دھوکا دہی آج عام شیوہ ہوتا جارہا ہے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہ جو دھوکا دہی سے کام لے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ایک بار آپ صلى الله عليه وسلم بازار میں ایک سامان کے اندر ہاتھ ڈالا جو اوپر سے خشک سامان اندر سے تر نکلا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ یہ دھوکا ہے، تر حصہ کو اوپر کرو۔

صفائی ستھرائی کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے آدھا ایمان قرار دیا، روزانہ پانچ وقتوں کی نمازوں کے لیے وضو کرنے کی صورت میں جسم کے ان اعضاء کو دھونے کی ہدایت جو عموما کھلی رہ کر مختلف جراثیم اورماحولیاتی عوامل کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، صفائی اور حفاظت کا بہترین نظام فراہم کرتی ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ میں یہ مثال ملتی ہے کہ مسجد نبوی میں ایک جانب ایک بدوی نے آکر پیشاب کردیا، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک بالٹی پانی منگواکراس کو صاف کردیا، دیوار پرکسی نے تھوک دیا تو اسے کھرچ کر اس کی جگہ خوشبولگادی، غذائی سامانوں میں جن چیزوں کو کھانے سے منع کیاگیا اس کی بنیاد اسی بات پر تو رکھی گئی ہے کہ وہ خبیث و گندگی ہیں، اور انسانی جسم و صحت کے لیے مضر ہیں۔ قرآن میں ہے: ”ویحل لہم الطیبات ویحرم علیہم الخبائث“ یعنی لوگوں کے لیے اچھی وطیب چیزوں کو حلال اور گندی اور خراب چیزوں کو حرام قرار دیا۔ شہری زندگی کے نوع بہ نوع سماجی مسائل اور ماحولیات سے متعلق سوالات کا بہترین حل اورجواب ہمیں کہیں مثالوں کی صورت میں اور کبھی اصولوں کی شکل میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ میں جگہ جگہ نظر آتاہے۔

آج ایک اہم مسئلہ شدت پسندی تشدد اور جارحانہ مزاج کا ہے جس کے پیچھے مختلف اسباب و عوامل کام کررہے ہیں۔ ان عوامل سے قطع نظر ہمیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی پاکیزہ زندگی میں ایسی رہنمائیاں، ہدایات اور مثالیں ملتی ہیں جو بڑی وضاحت کے ساتھ اعلان کرتی ہیں کہ کسی بے گناہ پر ظلم اور زیادتی ناقابل تسلیم ہے۔ کسی کو دہشت زدہ کرنا اور خوف میں مبتلا کردینا قطعاً ممنوع ہے۔ حتیٰ کہ کسی کے سامنے بلاوجہ تلوار لہرانے کو بھی غلط قرار دیاگیا ہے۔ جان کی قیمت اوراحترام تو واضح ہے ہی کسی دوسرے کا مال بھی اپنے لیے حلال نہیں ہے اور نہ اس کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔ کسی کے مال کا ذرا سا حصہ بھی اگر کسی انسان نے دبالیا ہے تو اسے واپس کرنا ہوگا، ورنہ اللہ کے نزدیک اسے جواب دہ ہونا اور حقدار کا حق واپس کرنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ ایک فعہ ایک شخص نے آپ صلى الله عليه وسلم کی مجلس میں آنے کی اجازت چاہی، آپ صلى الله عليه وسلم نے ساتھیوں سے فرمایا کہ وہ اچھا انسان نہیں ہے، لیکن اسے بلالو، وہ آیا تو آپ صلى الله عليه وسلم اس کے ساتھ اچھی طرح باتیں کرتے رہے، جب واپس چلاگیا تو کسی صحابی نے آپ صلى الله عليه وسلم سے پوچھا کہ آپ نے بتایا تھا کہ وہ اچھا آدمی نہیں ہے، لیکن آپ اس کے ساتھ اچھی طرح باتیں کرتے رہے آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جس آدمی کی زبان کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں وہ وہ برا ہے۔

ہمارے سماج کو رشوت خوری کے چلن نے اندر سے کھوکھلا بنادیا ہے،اور اس کی وجہ سے بالخصوص سماج کے کمزور اور غریب طبقات اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی پاکیزہ زندگی رشوت کو ایک سماجی لعنت قرار دے کر اس پر زبردست بندش لگاتی ہے؟ رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے دونوں کو گنہگار قرار دیتی ہے۔ اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے اپنے رب کے سامنے جواب دہی کے احساس کومحرک بنایاگیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ تم میں ہر شخص ذمہ دار ہے، اور ہر شخص سے اسکی مفوضہ ذمہ داریوں اوراس کے ماتحتوں کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ احساس ذمہ داری اور احساس جوابدہی کا یہ تصور رشوت کے دروازے کو بند کردیتاہے، سماجی زندگی میں آج کچھ سماجی لعنتیں گھس گئی ہیں، جس میں خواندگی زندگی سے تعلق رکھنے والے مسائل میں طلاق کی بڑھتی شرح اور جہیز و تلک کی مانگ سرفہرست ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہماری رہنمائی کرتی ہیں کہ نکاح کا رشتہ پائداری چاہتا ہے۔ بلاوجہ طلاق دینا اللہ کو سخت ترین ناپسند ہے، اور اسی طرح بلاوجہ طلاق کامطالبہ کرنا لعنت کا سبب ہے، خانگی زندگی کو خوشگوار اور پائدار بنانے کے لیے سیرت طیبہ نے قدم قدم پر بہترین ہدایت دی ہیں۔

عورتوں کے ساتھ حسن سلوک، ان کی کمزوریوں سے چشم پوشی، ان کے حقوق کی ادائیگی ، ان کے ساتھ حسن معاشرت کی تفصیلی ہدایات رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی سیرت و حیات میں موجود ہیں، جہیز کا مطالبہ اور جہیز کے لالچ میں عورت پر ظلم یادباؤ کسی قیمت پر گوارہ نہیں ہے، سیرت طیبہ کی تعلیم کا تقاضہ ہے کہ اس سماجی لعنت کو بالکل ختم کیا جائے اور خانگی زندگی کو سنت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سانچہ میں ڈھالا جائے۔

سماج میں باہمی اعتماد، تعاون اور باہمی محبت کا فروغ سماج کی بنیادوں کو مضبوط کرتاہے۔ ایسی مضبوطی کے لیے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے خاصا اہتمام فرمایا ہے، بڑی تفصیل کے ساتھ ہدایت دی گئی ہے کہ کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی نہ کی جائے، کسی کی ٹوہ اور تجسس میں نہ پڑا جائے، کسی کو مدد کے موقع پر بے یارومددگار نہ چھوڑا جائے، کسی کو برے نام اور برے لقب سے نہ پکارا جائے، کسی کے بارے میں بدگمانی نہ رکھی جائے، ہر انسان سے محبت کی جائے، اس کے تئیں حسن ظن رکھاجائے، باہمی محبت کو بڑھاوا دینے کا بہترین نسخہ ہے آپ صلى الله عليه وسلم نے یہ بتایا کہ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دئیے جائیں، سلام کو رواج دیا جائے، اس سے محبت بڑھتی ہے۔ باہمی مدد اور تعاون کا درجہ اتنا اونچا کیاگیا کہ فرمایاگیا جب تک انسان اپنے کسی بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس انسان کی مدد کرتا رہتا ہے۔ قرآن میں کہا گیا کہ ہرنیکی اور تقویٰ شعاری کے نام میں ایک دوسرے کی مدد کرو، گناہ اور ظلم و زیادتی میں تعاون مت کرو۔

سماجی زندگی میں ایک اہم مسئلہ مختلف مذاہب کے احترام اور ان کے درمیان بقائے باہم کا ہے۔ سیرت طیبہ میں اس بارے میں بہت واضح ہدایات موجود ہیں، میثاق مدینہ میں تمام مذاہب والوں کے لیے اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی کی ضمانت تاریخ میں محفوظ ہے، مذہبی اصولوں میں اپنی شناخت کے ساتھ باقی رہتے ہوئے دوسرے مذاہب اور ان کے ماننے والوں کا احترام اور اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی سیرت طیبہ نے دی ہے، اس نے بتایا کہ دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں ہے، اور مذہب کا فرق باہمی راواداری، باہمی تعاون، باہمی اشتراک، عمل اور سماجی ہم آہنگی میں ہرگز رکاوٹ نہیں بنتا ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اپنے اپنے مذہب پر عمل کی ضمانت کے ساتھ زیادہ مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی سیرت و کردار سے اس معاملہ میں کافی روشنی ملتی ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی سماجی زندگی بڑی ہمہ گیر، وسیع اورہر زمانہ کی سماجی ضروریات میں رہنمائی رکھنے والی ہے، سیرت طیبہ کا موضوع ایسے نقوش روشن سے مالامال ہے جس کی روشنی سے ہم اپنے اپنے سماج کی کسی بھی نوع کی تاریکی کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ سیرت طیبہ کا سماجی پہلو آج بھی ایک روشن قندیل ہے، ایک منبع فیض اور بہترین اسوئہ حسنہ ہے۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 0 / 5. Vote count: 0

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply