حیات شیخ عبدالقدر جیلانی

حیات شیخ عبدالقدر جیلانی
آپ کا نام عبد القادر بن ابی صالح ہے۔
آپ کا مشہور لقب محی الدین اور کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ اور دوسرے مورخین نے آپ کو مزید متعدد القاب سے یاد کیا ہے۔ مثلاً امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
الشیخ الامام العالم الزاھد العارف القدوہ شیخ الاسلام علم الاولیاء محی الدین ابو محمد عبد القادر۔ [سیر : ۴۳۹/۲۰]۔
البتہ آج کل آپ کو پیران پیر، غوث اعظم، غوث پاک، قطب الاقطاب جیسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ یہ القاب غیر شرعی بلکہ بعض تو قطعاً ناجائز ہیں۔ جیسے غوث یا غوث اعظم وغیرہ۔
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ ۴۷۰ھ یا ۴۷۱ ھ میں صوبہ گیلان میں پیدا ہوئے۔
آپ کا خاندان ایک علمی گھرانہ تھا، آپ کے نانا ابو عبد اللہ الصومعی مشہور صوفی بزرگ تھے ,، کتابوں میں آپ کا حلیہ کچھ اس طرح بیان ہوا ہے کہ میانہ قد، گندمی رنگ، چوڑا سینہ دبلا پتلا بدن، بھری داڑھی، بھنویں ایک دوسرے سے ملی ہوئی اور با رعب چہرہ۔
آپ کی ابتدائی تعلیم سے متعلق مستند کتب تاریخ خاموش ہیں، بعض کتب سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ آپ کا خاندان ایک علمی خاندان تھا، آپ کے شہر کے لوگ مذہب حنبلی پر قائم تھے اور آپ نے بغداد کے سفر سے پہلے قرآن مجید وغیرہ کی تعلیم حاصل کر لی تھی۔
اس وقت بغداد جہاں مسلمانوں کا سیاسی مرکز تھا وہیں ایک علمی و ثقافتی مرکز بھی تھا، اس لئے شیخ نے ابتدائے عمر ہی میں بغداد کا قصد کیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ ۴۸۸ھ میں ایام جوانی میں آپ نے بغداد کا سفر کیا جبکہ اس وقت آپ کی عمر ۱۷ یا ۱۸ سال تھی۔ اور اسی سفر کے دوران بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کے قافلے پر ڈاکووں نے حملہ کر دیا،ایک ڈاکو نے پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے تو آپ نے کہا میرے ۴۰ اشرفیاں ہیں ،کہا گیا کہ تم جھوٹ بھی بول کر بچ سکتے تھے تو آپ نے کہا کہ میری والدہ کی نصیحت ہے کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر جھوٹ نہ بولوں اس لے میں نے سچ کہا ،نتیجہ میں سارے ڈاکووں نے توبہ کر لی۔ممکن ہے یہ واقعہ سچ ہو لیکن اس میں آپ کو بالکل ایک ۷،۸ سال کے بچے کی عمر والا بنا پیش کرتےہیں جو کہ بالکل غیر معقول ہے اس لئے آپ کی عمر اس سفر میں ۱۷ یا ۱۸سال تھی۔
بغداد میں آپ نے وہاں کے نامور اہل علم سے اپنی علمی پیاسی بجھائی،
اللہ تبارک و تعالی جب اپنے کسی بندے سے کوئی خاص اور اہم کام لینا چاہتا ہے تو جہاں ایک طرف اس کام کے لحاظ سے اس کی تربیت و تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے وہیں دوسری طرف اس راہ میں پیش آنے والی دشواریوں کو بھی آسان کرتا اور اس بندے کو ہر آزمائش میں کامیاب بھی بناتا ہے، یہی کچھ شیخ عبد القادر رحمہ اللہ کے ساتھ بھی ہوا کہ طلب علم کی راہ میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جیسے وطن سے دوری، بھوک و پیاس اور تنگ دستی۔ لیکن اللہ تبارک و تعالی نے متعدد مقامات پر ان کی ایسی دستگیری فرمائی کہ ان کے پائے ثبات متزلزل نہ ہونے پائے، شیخ عبد القادر رحمہ اللہ خود بیان کرتے ہیں کہ طالب علمی کے زمانہ میں بسا اوقات خرنوب نامی کانٹے دار درخت، سبزیوں کے گرے پڑے ٹکڑے اور خس کے پتے کھا کر گزارہ کرتا تھا،
ایام طالب علمی کا اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں فقہ کے درس کا مراجعہ کر رہا تھا اس وقت مجھے سخت بھوک پیاس کا احساس ہوا جب میں بہت تنگ آگیا تو میں ایک کرانہ کی دوکان پر آیا اور دکاندارسے کہا کہ تم مجھے روزانہ ایک روٹی اور کچھ حب رشاد اس شرط پر دے دیا کرو کہ جب میرے پاس ادائیگی کی طاقت ہو گی تو میں ادا کر دوں گا اور اگر میں مرگیا تو مجھے معاف کر دینا، میری یہ بات سن کر وہ رونے لگا اور کہا کہ آپ جس طرح چاہیں میں تیار ہوں، خلاصہ یہ کہ میں ایک مدت تک اس سے روٹی اور حب رشاد لیتا رہا اس طرح کافی دن گزر گئے تو مجھے بڑی الجھن محسوس ہوئی کہ میں کب تک اس سے اس طرح لے کر کھاتا رہوں گا، میں گڑ گڑا کر دعائیں کرتا رہا اللہ نے میری دعا سن لیاور قرض کے ادئیگی کا انتظام فرمایا،
سچ فرمایا پیارے نبی نے عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا أَدَّى اللَّهُ عَنْهُ وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ إِتْلَافَهَا أَتْلَفَهُ اللَّهُ بخاری ۔اگر کوئی قرض لیتا ہے اس نیت کے ساتھ کہ جلد واپس لوٹائیگا تو اللہ اس کے قرض کی ادئیگی کے انتظامات فرماتا ہے اور اگر کوئی ٹال مٹول رکنے کی نیت رکھتا ہے،یا ادائیگی کی فکر نہیں کرتا تو اللہ اس واپسی کے راستے بند کردیتا ہے،اور اس کے مال تباہ کر دیتا ہے۔
ٹھیک یہی معاملہ شیخ کے ساتھ پیش آیا،دور حاضر میں بھی جو لوگ سالہا سال قرض واپس لوٹا نہیں سک رہے ہیں تو کہیں نہ کہیں دل میں کھوٹ پایا جاتا ہے اسی لئے اللہ کی خاص مدد شامل حال نہیں رہتی ہے۔
Subhanallah very nice site
Barkallahu feekum