حالات بے قابو ہوتے جارہے ہیں

السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
ناظرین اس وقت حالات بہت ہی نازک ہوتے جارہے ہیں ،ہر دن صبح سویرے کا اخبا ر چونکا دے رہا ہے ،سوشیل میڈیا میں ہسپتا لوں کی حالات بد سے بدتر نظر آرہی ہے ،ہر نماز میں جنازے کی نماز ہورہی ہیں ،قبرستا ن تیزی سے بھرتے جارہے ہیں ،قبر کھودنے والے اب ہاتھوں سے قبر کھودنا بند کر دئے ہیں کیوں کہ روزانہ جتنی قبروں کی ضرورت پڑ رہی ہے ہاتھوں سے نہیں کھودا جاسکتا ہے مشینوں سے قبریں کھودی جارہی ہیں۔ہر دن اخبار کا ایک صفحہ انتقال کی خبروں سے بھرا نظر آرہا ہے ،واٹس گروپس میں ہر دن کئی کئی لوگوں کے انتقال کی خبریں افسوس کے ساتھ لکھی اور سنائی جارہی ہیں۔
ان مشکل اور خطرناک حالات میں ہمارے بھائی افسوس تو کر رہے ہیں لیکن احتیاط نہیں کر رہے ہیں ۔بھیڑ بھاڑ سے نہیں بچ رہے ہیں،ماسک کی پابندی نہین کر رہے ہیں ،مصافحہ کو ابھی بھی لازم سمجھ رہے ہیں،اگر کوئی مصافحہ نہ کرے تو اس کو عجیب نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔میرے بھائیو جب حالت نماز میں فاصلہ رکھنے کا فتوی آچکا ہے تو مصافحہ کرتے ہوئے کیوں خطرہ مول لے رہے ہیں۔
یاد رکھیں اس وقت حیدرآبا د کی حالت یہ ہے کہ کسی ہسپتال میں بیڈ نہیں مل رہا ہے ،کارپوریٹ ہسپتالوں میں صرف لاکھوں کی بات کرنے والوں سے بات کی جارہی ہے ،اگر کوئی مریض غریب نظر آئے تو اس کو گیٹ کے اندر بھی داخلہ نہیں مل رہا ہے۔گیٹ پر سے ہی واپس کیا جارہا ہے۔
اس کورونا نے اللہ کی بڑائی کو سمجھا دیا ہے ،کہا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں40 لاکھ لوگ متاثر ہیں ،اگر ان سب وائرس کو جمع کیا جائے تو آدھا گرام بھی نہیں ہوسکتے ہیں،یہ اللہ کی مخلوق جو آدھا گرام بھی نہیں ہوسکتی لیکن ا س نے 40 لاکھ لوگوں کو پریشان کر دیا ہے ،اب سوچیں اللہ کی عظمت وطاقت کیسی ہے۔ساری دنیا کو تباہ کرنے کے لئے ایک گرام وائرس ہی کافی ہے ۔اس قدر ٹیکنالوجی میں ترقی کے باوجود کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔انسان 100 کلو کا ہوتا ہے لیکن ایک وائرس جس کا کوئی وزن ہی نہیں ہوتا ہے لیکن وہ 100 کلو کے آدمی کو ڈھیر کر دیتا ہے اٹھنے کے لائق بھی نہیں چھوڑتا ہے۔
اس کورونا نے نہ امیر کو چھوڑا نہ غریب کو دیکھا سب کو لپیٹ میں لیا ،نہ امیر ملک کو دیکھا ،نہ غریب کو چھوڑا سب کو اپنے جال میں لیا ،
جب زمین پر گناہ بڑھ جاتے ہیں تو مصیبتیں اور بلائیں نازل ہوتی ہیں،اور یہ بلائیں صرف توبہ سے دور ہوسکتی ہیں۔ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُون)
اللہ تعالی کا فرمان ہے جب تک بندے توبہ کرتے رہیں گے وہ مصیبتوں سے بچاتا رہیگا ۔یہ وائرس دنیا کا نیا وائرس ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں آ یا تھا ،لیکن ایسا بھی نہیں کہ یہ آخری وائرس ہوگا ،بلکہ ہر سال نئے نئے وائرس پیدا ہوتے جائیں گے ۔ہر آنے والا وائرس پہلے وائرس سے بڑا بھیانک ہوگا ۔نیا وائرس پرانے وائرس کو چھوٹا بنا دےگا ۔
ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں لکھا ہے سن 478 ہجری میں عرب کی سرزمین پر وبا پھوٹ پڑی ،جس کی وجہ سے پہلے چھوٹے چھوٹے جانور مرنے لگے ،پھر بڑے جانور مرنے لگے ،یہاں تک کہ دودھ دینے والے جانور ختم ہورہے تھے، ہوائیں چلیں تو کھجور کے باغات کو تہس نہس کر دیا ،یہاں تک کہ لوگوں نے سمجھا اب قیامت برپا ہونے والی ہے ان حالات میں خلیفہ وقت نے حکم جاری کیا کہ جتنے ناچ گانے کے آلات ہیں سب توڑ دئے جائیں، شراب خانوں کو توڑ دیا گیا ،برائی کے سارے ذراائعہ تہس نہس کئے گئے لوگوں نے خوب توبہ کی تو وبا سے نجات ملی ۔
ناظرین اس مہلک وبا میں احتیاط کرنا ،بچاو کے اسباب اختیار کرنا کیا توکل کے خلاف ہے؟ کیا تقدیر کے عقیدے کے خلاف ہے؟آئے ہم رسول اللہ کی تعلیمات کی روشنی میں ذرا جائزہ لیتے ہیں ۔
1رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ پر توکل کس قدر تھا اس کو کوئی ناپ نہین سکتا کوئی انگلی اٹھا نہیں سکتا ۔لیکن اس کے باوجود آپ نے ہر مرحلے میں اسباب کو اختیار کیا اور وقت پڑنے پر احتیاط کیا ۔اب ذرا دیکھیں ایک نبی ہونے کی وجہ سے اگر آپ جنگوں میں صرف دعا بھی کر دیتے شریک نہ ہوتے ،نہ لڑتے تو بھی جیت ہوسکتی تھی لیکن آپ نے جنگیں لڑیں اور یہ ثابت کیا کہ اسباب اختیا ر کرنا پڑےگا ۔جنگوں کے لئے سحابہ کوتیار کیا ،تلوار لی،گھوڑے لئے ، سروں پر جنگی ٹوپیاں پہنی،تلوار سے بچنے کے لئے ڈھال کا استعمال کیا ۔
2ہجرت کے موقعہ پر ایک راستہ دکھانے والے کوکرائے پر لیا ، دشمن سے بچنے کے لئے احتیاطی طور پر غار میں چھپ گئے ، جب غار میں چھٌپنے کا فیصلہ کیا تو کیا اللہ پر توکل نہیں تھا ؟تھا لیکن اسباب اختیار کرتے ہوئے احتیاط کیا ۔
3 جب جنگ میں روانہ ہوئے سارے صحابہ جنگ میں نکل گئے لیکن آ پ نے احتیاط کے طور پر اپنے داماد عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو گھر پر رہنے کا حکم دیا ۔
4 جنگ بدر میں میدا ن میں کھڑے ہیں اللہ نے جنگ جیتنے کی خوش خبری دے رکھی ہے پھر بھی آپ مسلسل دعائیں کر رہے ہیں۔ ایسے سیرت میں ہزاروں واقعات ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اسباب اختیار کرنا ،احتیاط کرنا خلاف توکل نہیں ہے ،نہ ہی ایمان کے کمزور ہونے کی علامت ہے۔
ہم اپنے ایمان والے بھائیوں سے گزار کرتے ہیں کہ ان حالات میں حتی الامکان گھروں پر رہیں ،سخت ضرورت پر ہی باہر نکلیں، اپنے بچوں کو گھروں میں رکھیں ۔اب حکومت کوئی پابندی لگانے والی نہیں ہے ،نہ ہی بیمار ہونے پر تشفی بخش علاج ہونے والا ہے ۔ہسپتالوں کی حالت قابل رحم ہے۔ڈاکٹرس لمبی لمبی ڈیوٹی انجام دیتے تھک چکے ہیں،وہ بھی تناو کا شکا رہورہے ہیں، بے شمار ڈاکٹرس علاج کرتے کرتے وہ بھی وائرس کا شکار ہورہے ہیں،ڈاکٹرس میں اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوتے ہوئے نظر آرہا ہے،کیو ں کہ وہ بھی انسان ہیں،وائرس سے بچنے کا جو لباس ہے وہ پہن کر مسلسل ڈیوٹی انجام دینے وہ خود بیمار ہورہے ہیں۔ مسلسل دستانے پہننے سے ان کے ہاتھ چھلنی ہورہے ہیں۔ان حالات میں جو احتیاط کرتا ہے وہی عقلمند ہے ۔