تقویٰ

اس دنیا میں انسان کا کوئی بھی کام بے فائدہ اور بے مقصد نہیں ہوتا توکیا وہ ذات باری جس نے انسان کو تقوی کا حکم دیا اُس کا یہ حکم فائدہ سے خالی ہوگا؟ نہیں ہر گز نہیں! یاد رکھیں کہ تقوی کے فوائد اور اُس کے ثمرات بے پناہ انگنت اور لا متناہی ہیں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ذیل کے سطور میں ہم تقوی کے فوائد وثمرات کا تذکرہ کر رہے ہیں:
تقوی کے اخروی فوائد وثمرات:
1- اللہ کی محبت کا حصول :
دنیا میں تقوی کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالی کی محبت ہوتی ہے:
إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ( سورہ التوبہ: 4)
” کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے”
اور ظاہر ہے کہ جو اللہ تعالی کا محبوب ہوگا اُسے اللہ تعالی کی مدد، نصرت اور تایید بھی حاصل ہوگی چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ( سورہ التوبہ: 36)
“اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے”
چنانچہ جب آپ اسلامی فتوحات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ مجاہدین اسلام ہمیشہ تعداد اور قوت میں کم رہے ہیں، اگر انہیں اپنے دشمنوں پر فتح ملی ہے تو محض تقوی کی بنیاد پر۔
2- دل میں نور و بصیرت کا پیدا ہونا:
تقوی بندہ مومن کے دل میں نور پیدا کرتا اور اُس کی بصیرت کو جلا بخشتا ہے جس کی بنیاپر وہ حق و باطل میں تمیز کر لیتا ہے، لہذا متقی کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّـهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( سورہ الأنفال: 29)
“اے ایمان لانے والو! اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا اور تمہاری بُرائیوں کو تم سے دُور کر دے گا، اور تمہارے قصور معاف کر دے گا اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے”۔
3- شیطان پر غلبہ پانے کے لیے روحانی قوت کا حصول:
اللہ تعالی متقی کو شیطان پر غلبہ پانے کے لیے روحانی قوت بھی پہنچاتا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ ( سورہ الأعراف: 201)
“حقیقت میں جو لو گ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے “۔
4- رزق کی کشادگی اور خیر وبرکت کا حصول:
تقوی رزق کی کشادگی، خوشحالی وفراوانی، اور خیرو برکات کے حصول کا ذریعہ ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَـٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ( سورہ الأعراف: 96)
“اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھو ل دیتے، مگر اُنہوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اُس بری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے”۔
واقعی اگر آج یقین ہوتا کہ تقوی رزق میں کشادگی کا ذریعہ ہے تو فی الواقع ہم اس کے تعلق سے اس قدر بے پرواہ واقع نہ ہوتے۔ اور نہ صرف یہ کہ تقوی رزق میں کشادگی کا ضامن ہے بلکہ اگر تقوی اختیار کرنے کی وجہ سے رزق جاتا رہا تو اللہ تعالی اس کا نعم البدل بھی عطا کرتا ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ﴿٢﴾ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (سورہ الطلاق: 2-3)
“جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا (2) اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو “۔
اس آیت کریمہ میں یہ درس دیا گیا ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے لوگوں کے لیے اللہ تعالی مشکلات میں آسانی وحل پیدا کردیتے ہیں اور بے شان و گمان ایسی جگہ سے روزی دیتے ہیں جہاں کا خیال کی رسائی بھی نہ ہو سکے، آج ہم اس طرح کی آیتیں پڑھتے اور سنتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ہمیں اُس پر یقین نہیں، اس لیے حرام کاروبار کررہے ہیں، جانتے ہیں کہ وہ حرام ہے لیکن اُسے ترک کرنے پر تیار نہیں، روزی کے کٹ جانے کا اندیشہ ہے۔
ذرا اس واقعے پر غور کیجئے حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے تذکرۃ الحفاظ (1/344 ) میں عفان بن مسلم رحمہ اللہ کی بابت لکھا ہے کہ خلیفہ مامون نے اپنے عہد میں اپنے گورنر کو خط لکھا کہ جو علماء قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ نہ رکھیں اُن کا وظیفہ بند کردو، عفان بن مسلم رحمہ اللہ بصرہ کے محدث تھے، چنانچہ بصرہ کے گورنر نے آپ کو بلاکر خلیفہ مامون کا فرمان سنا دیا اور سفارش کی لیکن آپ نے خلق قرآن کے عقیدے کو منظور نہ کیا، گورنر نے فرمان سنا دیا کہ آج سے آپ کا 500 روپیہ ماہوار کا وظیفہ بند کیا جاتا ہے، آپ نے گورنر کے سامنے یہ آیت پڑھی:
وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ ( سورہ الذاریات: 22 )
“آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے” ۔
وہاں سے آپ پلٹ کر گھر پہنچے اور بیوی کے ساتھ اُسی موضوع پر بات کر رہے تھے کہ شہر کے ایک صاحب خیر نے دروازے پر دستک دی، دروازہ کھولنے کے بعد علیک سلیک ہوا اس کے بعد کہا: میں نے سنا ہے کہ آپ کا پانچ سو ماہوار وظیفہ بند کردیا گیا ہے، آپ نے فرمایا: جی ہاں! آج سے بند ہو گیا ہے،اہل دل تاجر نے کہا: تو کچھ مضائقہ نہیں آج کی تاریخ میں سے برابر آپ کو ماہانہ ایک ہزار روپیہ دیا کروں گا، آپ میری یہ خدمت قبول فرمایئے اور پوری دل جمعی سے دین کی خدمت کیجئے اور لیجئے ایک ہزار کی یہ پہلی قسط حاضر ہے۔
عزیز قاری! دیکھا آپ نے کہ کس طرح اللہ تعالی نے اُن کی روزی کا انتظام فرمایا: سچ کہا صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے:
إنَّكَ لن تدَعَ شيئًا اتِّقاءَ اللَّهِ، جَلَّ وعَزَّ، إلَّا أعطاكَ اللَّهُ خيرًا منهُ (الصحيح المسند: 1523 صحيح)
” اگر تم اللہ سے ڈرتے ہوئے کوئی چیز ترک کر دیتے ہو تو اللہ تعالی تجھے اُس سے بہتر عنایت کرے گا”۔
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے جامع العلوم والحکم (2/223) میں نقل کیا ہے کہ جب حسن بصری رحمہ اللہ حجاج سے فرار ہوئے تو حجاج نے ان کے پیچھے اپنا فوجی دستہ روانہ کیا، وہ بھاگ کر ابومحمد حبیب کے گھر آئے اُن سے کہا: ابو محمد! کیا آپ اور آپ کے رب کے بیچ یہ وعدہ نہیں کہ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اُس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دے گا، آپ گھر میں داخل ہوجا ئیے اللہ آپ کو اُن کی نظروں سے ضرور بچائے گا چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ داخل ہوگئے، ان کے آثار قدم پولس بھی گھر میں داخل ہوئی لیکن انہیں تلاش بسیار کے باوجود نہ دیکھ سکی، جب حجاج اس کا ذکر کیا گیا تو اس نے کہا: “بل كان في البيت، إلا أنَّ الله طَمَسَ أعينهم، فلم يروه “. بلکہ وہ گھر میں ہی تھے تاہم اللہ تعالی نے اُن کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا اور وہ انہیں دیکھ نہ سکے۔
5- دشمنوں پر غلبہ اور ان کے شر سے نجات کا ذریعہ ہے:
تقوی دشمنوں پر غلبہ، اُن کی سازشوں کی ناکامی اور ان کے شر سے نجات کا ذریعہ ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ ( سورہ آل عمران:120 )
بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس پر حاوی ہے
6- متقین ہی نصیحت سے فائدہ اٹھاتے اور آیات الہی پر غور کرتے ہیں:
خود اللہ تعالی نے قرآن کریم کے چشمہء فیض سے سیراب ہونے کے لیے تقوی کی شرط رکھی ہے۔ چنانچہ جب آپ سورہ فاتحہ کے بعد پہلی سورہ کھولیں گے تو اس کا آغاز ہی ہوتا ہے:
الم ﴿١﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ( سورہ البقرہ: 1-2)
“الف لام میم (1) یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہدایت ہے پرہیز گار لوگوں کے لیے”
یعنی جو راہ ہدایت کے متلاشی اور خوف الہی سے سرشار ہوں گے وہی اس کتاب سے ہدایت یاب ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے:
اللهمَّ ! إني أسألُك الهدى والتقى ، والعفافَ والغنى (صحيح مسلم : 2721 صحيح)
“اے اللہ میں تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت اور بے نیازی کا سوال کرتا ہوں”۔
7- فرائض کا ذوق و شوق پیدا کرتا ہے:
تقوی ہی مومن کو فرائض کی ترغیب دلاتا اور اس کے اندر اس کی ادائیگی کا ذوق و شوق اور نشاط پیدا کرتا ہے، کتنے ایسے کمزور طبیعت اور مریض دل میں جن کے لیے واجبات و فرائض کی انجام دہی بارخاطر بن جاتی ہے اور مومن تقوی کی گرانقدر دولت کی بنیاد پر اُسے بحسن و خوبی انجام دے لیتا ہے، اُس کی خاطر زحمتیں اٹھاتا اور صبر و استقامت اختیار کرتا ہے۔
8- رب سے قریب کرتاہے:
تقوی ایک ایسا میزان ہے جو بندہ کو اپنے رب سے قریب کرتا ہے، خواہ اُس کا تعلق کسی بھی قوم، جماعت، رنگ یا نسل سے ہو، گویا کہ افضلیت کا معیار اللہ تعالی کے نزدیک تقوی ے، نہ کہ ذات برادری، نسل اور خاندان۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ(سورہ الحجرات:13)
“اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے”
9- تقوی قبولیت اعمال کا سبب ہے:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (سورہ المائدہ: 27)
“اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے ”
اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، عمل کرنے سے زیادہ عمل کی قبولیت کا اہتمام کرو، کیا تو نے اللہ تعالی کا یہ قول نہیں سنا:
إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ
“اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے”
10- تقوی طلب علم میں آسانی کا ذریعہ ہے:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّـهُ ۗ ( سورہ البقرہ:282)
“اللہ کے غضب سے بچو وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے” اللہ والوں نے اللہ کا تقوی اختیار کیا اس لیے اللہ تعالی نے ان کے علم اور عمر میں غیر معمولی برکت عطا فرمائی، اس کے برعکس گناہوں کا ارتکاب اور محارم الہی کی پامالی زوال علم کا سبب ہے.
اسی لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: إن الرجل لينسى المسألة من العلم للخطيئة يرتكبها “ایک انسان گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے علم کا کوئی مسئلہ بھول جاتا ہے”
تقوی کے اخروی فوائد وثمرات:
اب تک ہم نے آپ کے سانے تقوی کے دنیاوی فوائد وثمرات کی ایک جھلک پیش کی ہے، اب آئیے ہم تقوی کے اخروی فوائد پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں، تقوی کے دنیاوی فوائد اپنی کثرت کے باوجود اخروی فوائد کے مقابلہ میں پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتے، ذرا اُس دن کا تصور کریں جس دن صور میں پھونک مارا جائے گا، ساری دنیا تباہ و برباد ہو جائے گی، مائیں اپنی دودھ پلاتی بچوں کو بھول جائیں گے، سورج سوانیزے کے قریب ہوگا، لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے، کسی کے پسینہ پنڈلی تک، کسی کے کمر تک، اور کسی کے کانوں کے لو تک پہنچ چکا ہوگا، اس دن کی ہولناکی کو بیان کرکے اللہ تعالی نے ہم کو دھمکی دی:
فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِن كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا( سورہ المزمل: 17)
“اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اُس دن کیسے بچ جاؤ گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا”
اللہ اکبر! اُس دن کی ہولناکی ایسی کہ چھوٹے معصوم بچوں کو بوڑھا بنادے، لیکن جانتے ہیں ایسی پر ہول ساعت میں نجات کیوں کرہے؟ جی ہاں! نجات اور چھٹکارا اسی کلمہ میں ہے، جس کی وصیت اللہ تعالی نے اولین و آخرین کو کی ہے، یعنی اللہ کا تقوی، لیکن کون سا تقوی؟ محض زبانی دعوی نہیں، اگر زبانی دعوی کی کوئی اہمیت ہوتی تو سب سے پہلے ابلیس کو نجات ملنی چاہئے تھی، کیوں کہ آج وہ ضرور انسان کو گمراہ کر رہا ہے، تا ہم کل قیامت کے دن اپنی براءت کا اظہار کرتے ہوئے کہے گا:
إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ ( سورہ الحشر: 16 )
“کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں، مجھے تو اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے”۔
اس دن کی ہلاکت سے نجات کے لیے جو تقوی درکار ہے وہ ہے حقیقی تقوی کہ انسان اللہ تعالی کی مراقبت و نگرانی کو پوری طرح اپنے دل میں اُتار لے، ایسے ہی لوگ اُس دن کے خوف اور وحشت سے نجات پانے والے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا ﴿٧١﴾ ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا ( سورہ مریم: 71-72)
“تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر وارد نہ ہو، یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پُورا کرنا تیرے رب کا ذمہ ہے (71) پھر ہم اُن لوگوں کو بچا لیں گے جو (دنیا میں) متقی تھے اور ظالموں کو اُسی میں گرا ہُوا چھوڑ دیں گے”۔
اور دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَيُنَجِّي اللَّـهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ( سورہ الزمر: 61)
“اس کے برعکس جن لوگوں نے یہاں تقویٰ کیا ہے ان کے اسباب کامیابی کی وجہ سے اللہ ان کو نجات دے گا، ان کو نہ کوئی گزند پہنچے گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے”
اس کے بعد کیا ہوگا؟ اللہ تعالی متقیوں کو بہشت میں داخلہ کا پروانہ دے دے گا، ارشاد باری تعالی ہے:
وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ( سورہ آل عمران: 133)
“دوڑ کر چلو اُ س راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ اُن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی”۔
بلکہ اہل تقوی تمام اخروی نعمتوں کے مستحق ہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَعِيمٍ (سورہ الطور:17)
“متقی لوگ وہاں باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے”
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ (سورہ الدخان: 51)
“خدا ترس لوگ امن کی جگہ میں ہوں گے”
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ( سورہ الذاریات: 15)
“البتہ متقی لوگ اُس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے”
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ (سورہ المرسلات:41 )
“متقی لوگ آج سایوں اور چشموں میں ہیں”
إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ (سورہ القلم: 34)
“یقیناً خدا ترس لوگوں کے لیے اُن کے رب کے ہاں نعمت بھری جنتیں ہیں”
إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا ( سورہ النباء: 31)
“یقیناً متقیوں کے لیے کامرانی کا ایک مقام ہے”
وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَآبٍ ( سورہ ص: 49)
“متقی لوگوں کے لیے یقیناً بہترین ٹھکانا ہے”
رب رحیم وکریم سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ایمان کی مرجھائی ہوئی کھیتی کو تقوی کے باد و بہار سے شاداب کردے کہ ہم سب دنیا میں سعادت مند زندگی گزار سکیں اور آخرت میں بہشت کی پر کیف نعمتوں کے حقدار بن سکیں۔ آمین یارب العالمین۔