تعلقات توڑ لینا کیسا ہےَ

سامعین  ہمارےمعاشرے میں خاندان کی  چھوٹی چھوتی چیزوں پر  اپنے تعلقات کو کاٹ لیتے ہیں،پھر سالہا  سال اسی سرد جنگ   میں جیتے رہتے ہیں، خاص طور پر   رشتے داروں  کے درمیان  بہت زیادہ      ہوتی ہے۔گھر کی بڑی عورتیں اس کو بہت زیادہ ہی ہوا دیتی رہتی ہیں،جبکہ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

(( لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ ))

” جنت میں قطع کرنے والا نہیں جائے گا۔”صحيح البخاري

اس حدیث میں قطع سے مراد قطع رحم ہے  یعنی تعلقات کو ختم کرنے والا۔جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ قطع رحم یا قطع رحمی کا مطلب ہے، رشتے توڑنا اور رشتےداروں کے ساتھ بد سلوکی کرنا۔ یہ بہت بڑا گناہ  ہے۔ اس کے مقابلے میں صلہ رحمی  کرنا ہے، یعنی رشتوں کو جوڑنا، ملانا، ان کو قائم رکھنا اور رشتےداروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ اس کی اتنی تاکید ہے کہ رشتےدار اگر بد سلوکی کریں تب بھی صلہ رحمی کرنے کا حکم ہے بلکہ بد سلوکی کے جواب میں رشتےداروں کے ساتھ حسن سلوک ہی کو اصل صلہ رحمی قرار دیا گیا ہے۔ چانچہ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(( لَيْسَ الْوَاصِلُ بَالْمُكَافِيِء وَلٰكِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا ))

“بدلے کے طور پر حسن سلوک کرنے والا،  صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ شخص ہے کہ جب اس کے رحم کو کاٹا جائے (رشتے داری توڑی جائے ) تو وہ اسے ملائے ( یعنی رشتےداری قائم رکھے )۔”صحيح البخاري،

حدیث میں ایک شخص کا واقعہ آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا:

اے اللہ کے رسول ! میرے کچھ رشتے دار ہیں ، میں ان سے تعلق جوڑ تا ہوں ، وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں ۔ میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہوں ، وہ مجھ سے بد سلوکی کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ برد باری سے پیش آتا ہوں ، وہ جاہلانہ سلوک کرتے ہیں۔

نبی ﷺ نے اس کی باتیں سن کر فرمایا :

” اگر تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے بیان کیا تو گویا تو ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہا ہے۔ اور جب تک تیرا طرز عمل یہی رہے گا ، اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے مقابلے میں تجھ پر ایک مدد گار مقرر رہے گا۔”صحيح مسلم

یعنی جس طرح گرم راکھ کھانے کا نتیجہ اچھا نہیں ، اسی طرح ان کی قطع رحمی اور بد سلوکی کا نتیجہ ان کے لیے بہت برا ہے ، تا ہم تیرا طرز عمل اللہ تعالیٰ کو پسند ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کے شرسے  تجھے بچائے گا اور تیری خصوصی حفاظت فرمائے گا ۔

دیکھا آپ نے  رشتے دار غلط سلوک کرنے کے باوجود   بھی اچھا سلوک  کرنے کا حکم دیا جارہاہے،عام طور ہمارے معاشرے میں  اچھے سلوک کی امید رکھتا ہے لیکن       اچھا سلوک  کرنے تیار نہیں   رہتے ،ہم سجھتے  ہیں کہ   وہ فون  نہیں کرتے تو ہم کیوں کریں،وہ بات نہیں کرتے تو ہم کیوں کریں، وہ نہیں بلاتے تو   ہم کیوں جائیں  ؟وہ نہیں آتے تو ہم کیوں جائیں،وہ سلام نہیں کرتے تو ہم کیوں سلام کریں، وہ اگر خیر  خیریت نہ پوچھیں تو ہم کیوں پوچھیں،وہ ہمیں توجہ نہ دیں تو ہم کیوں توجہ دیں،  اگر وہ  ہماری آو بھگت   نہ کریں تو ہم کیوں کریں، اگر وہ ہماری دعوتوں  میں نہیں آتے تو ہم کیوں جائیں، بس اسی انا  سرد جنگ جاری رہتی ہے،اور اس سرد جنگ کو لمبی مدت تک کھنچنے میں خواتین کا بہت رول ہوتا ہے، ہم یہ    نہیں کہتے    کہ ساری خواتین  ایسی ہوتی ہیں ،    بلکہ بہت ساری خواتین ایسی بھی  ہوتی   ہیں جو  سارے خاندان کو     لے کر چلتی ہیں،  خاندان مین ہر    ایک    کی مدد کرتی ہیں، ہر  فرد کی ہمت افزائی کرتی ہیں ہر فرد کے      سکھ دکھ میں   شریک رہتی ہیں۔اس کے باوجود بھی  معاشرے میں    جتنی بھی تعلقات میں   سرد مہری پائی جاتی ہے،سرد   جنگ     پائی جاتی ہے    اس میں خواتین  کا بڑا حصہ ہوتا ہے،اس لئے   خواتین     کو  چاہئے       اس  حدیث سے   عبرت  حاصل کریں ۔ خاندان میں یا دوستوں میں   جتنی بھی     غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں    ان کے جوابات    ان متعلقہ لوگوں سے  لینے بجائے خود جوابات    فرض کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے گلط فہمی  باقی رہتی ہے بلکہ اور زیادہ ہوجاتی ہے،عام طور پر سارے مسائل کا حل   بہت ہی آسان ہوتا ہے جبکہ  متعلقہ   شخص سے ڈائریکٹ بات کرتے ہیں،اگر ہم  خود  اپنے غلط فہمیوں کے جوابات تلاش کرلیں تو پھر  یہ نادان دل ہمیشہ  غلط راستے پر لے جاتا ہے ، اور دوریاں ہی پیدا کرتا ہے۔پھر نتیجہ میں عمر بھر ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں اور جد ہی رہتے ہیں ،بلکہ یہ جدائیاں   آئندہ آنے والی نسل میں بھی منتقل کی جاتی ہے، اور یہ   نازک ذہنوں میں  نفرت کی آگ بھر دی جاتی ہے۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 5 / 5. Vote count: 2

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply