تاج محل کے بجائے

ناظرین دنیا بھر کی عمارتون میں اگر کسی خوبصورت عمارت کا حوالہ دیا جاتا ہے تو تاج محل کی مثال دی جاتی ہے،لیکن ہم جب جب تاج محل کو دیکھتے ہیں ہمارا ماضی ہماری تاریخ ہمیں سر جھکانے پر مجبور کرتی ہے،شاہ جہاں نے تاج محل کیوں بنایا ہم سبھی جانتے ہیں،لیکن کاش اگر ذرا شاہ جہاں کی نظر تاج محل کے بجائے اپنی قوم کے مستقبل پر ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔اس قدر مال ہونے کے باجود بھی کوئی قابل حکیم یا ڈاکٹر پیدا نہین کرسکا،شاہ جہاں ک بیٹی جہان آراء جب بیمار ہوئی تب علاج کے لئے ایک انگریز ڈاکٹر کی خدمت لینی پڑی اور فیس کے طور پر بادشاہ کو اس انگریز کو چند تجارتی حقوق دینے پڑے،یہ اتنی بڑی فیس تھی کہ جس سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیا د پڑی،مزید افسوس کی بات یہ شا جہاں کے دربار میں مریض کا درجہ حرارت ناپنے کے لئے تھرما میٹر تک نہیں تھا جبکہ شاہ جہاں کے دور سے 35 سال پہلے اٹلی کے گلیلو نے تھرما میٹر ایجاد کر چکا تھا لیکن شاہ جہاں اس سے بے خبر تھا۔
شاہ جہاں نے آگرہ میں اپنی بیوی کی یاد میں تین کروڑ روپئے آج کے تین ہزار کروڑ روپئے ،ہوتے ہیں اس کی لاگت سے تاج محل بنایا ،شاہ جہاں کے پاس دنیا کے بہترین آرکیٹیکٹ کی ایک کثیر تعداد موجود تھی ،کاش شاہ جہاں ان کی مدد سے آگرہ میں تاج محل کے بجائے ممتاز محل یونیورسٹی آف آرکٹیکچر بنائی ہوتی تو مسلمانوں کی اس ینیورسٹی سے فی سال 2000 کے حساب سے اب تک دس لاکھ مسلمان آرکیٹیکٹ بن گئے ہوتے جو نہ جانے کتنی نادر عمارتیں تعمیر کر چکے ہوتے،شاہ جہاں کا تاج محل فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہے لیکن اس کے ذریعہ سیاحوں سے حاصل ہونے والی کروڑون کی آمدنی سے ایک روپیہ بھی اس قوم کو براہ راست نہیں ملتا ،اب اگر کچھ لوگ شاید یہ کہیں گے اس زمانے میں یونیورسٹی وغیرہ کے قیام کا کہان چلن تھا؟تو ان لوگون کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ شاہ جہاں کے دور سے سو سال پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی اور پیرس کی یونیورسٹی قائم ہوچکی تھی ،اور تاج محل کے 62 سال پہلے جدید قسم کی کیمبریج یونیورسٹی بھی قائم ہوچکی تھی،لیکن ہمارے بادشاہوں کو ہیرے جوہرات جمع کرنے سے ہی فرصت نہیں ملی۔
شاہ جہاں نے اپنی بیوی کے انتقال پر یادگار کے طور پر تاج محل کے بجائے اگر ایک زبردست ہسپتال قائم کرتا تو بھی معقول تھا،کیوں کہ شاہجہاں کے چودھویں بچے کی زچگی کے وقت ممتاز محل کا انتقال ہواتھا،اور شاہجہاں دنیا کا بڑے سے بڑا ہسپتال قائم کرسکتا تھا،یا میڈیکل کالج قائم کر سکتا تھا آج قوم وملت کو ہزاروں ڈاکٹرس ملتے ،لیکن اس طرف دھیان ہی نہیں گیا اور نہ اس کے مشیروں نے دھیان دلایا،
کاش شاہجہاں اس رقم کو قوم وملت کی تعلیم پر لگاا ہوتا تو بات ہی کچھ اور ہوتی۔
ہم اپنے قوم وملت کے سرمایا داروں سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ اپنے شادیوں کے ،ولیمہ کے اخراجات کو کم کریں اور ملت کی تعلیم کا انتظام کریں،ہر شہر میں کیئریر گائڈنس سنٹرس قائم کریں،کچھ ایسے لوگوں کو باقاعدہ تنخواہ دے کر مقرر کریں جو اسکولوں کالجوں یونیورٹیوں کا دورہ کرتے ہوئے نوجوانوں کی رہنمائی کریں،ان کے لئے بہتر راستہ کیا ہوسکتا ہے بتائیں۔اگر استاذہ ہیں تو طلبہ کی بھرپور رہنمائی کریں،ان کی پسند ناپسند پر نظر رکھیں رہنمائی کریں،اگر پرنسپل ہیں تو کیرئیر کونسلنگ کے لئے کیامپ لگائیں،اگر آپ تاجر یا مالدار ہیں آپ کے پاس وقت نہ ہوتو اس طرح کے کام کرنے والوں کا تعاون کریں۔الغرض امت کی ترقی کے لئے ہر آدمی کو سوچنا ہوگا ،یا حصہ لینا ہوگا۔