بیمار دل

بیمار دل
آدمی دور حاضر میں اپنے جسم کو مختلف بیماریوں سے بچانے کے لئے اڈوانس میں طرح طرح کے چیک اپ کراتا ہے،واکنگ کرتا ہے ،جاگنگ کرتا ہے ،کسی جم کو اتنڈ کرتا ہے،بار بار اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھتا ہے ،لیکن یہ سب اپنے ظاہری جسم کے لئے کرتا ہے۔اپنے ظاہری جسم کو تندرست وتوانا رکھنے کے باوجود اس کو سکون نہیں ملتا ہے ،وہ سکون کی تلاش میں گناہوں کا سہارا لیتا ہے۔ایسے موقعہ پر اس کا جسم تو اچھا رہتا ہے لیکن اس کا دل بیمار ہوتا ہے۔انسان کو کیسے پتہ چلے کہ اس کا دل بیمارہے؟ اس سلسلہ میں حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ نے کچھ علامات بتائی ہیں۔
پہلی علامت
جب انسان دنیوی اور ختم ہونے والی چیزوں کو باقی رہنے والی چیزوں پر ترجیح دینے لگے تو وہ سمجھ لے کہ اس کا دل بیمار ہے ۔ مثلاً دنیا کا گھر اچھا لگتا ہے مگر آخرت کا گھر بنانے کی فکر نہیں ہے۔ دنیا میں عزت مل جائے مگر آخرت کی عزت یا ذلت کی سوچ دل میں نہیں۔ دنیا میں آسانیاں ملیں مگر آخرت کے عذاب کی پرواہ نہیں تو سمجھ لیں کہ دل بیمار ہوچکا ہے۔
دوسری علامت
جب انسان رونا بند کردے تو وہ سمجھ لے کہ دل سخت ہوچکا ہے۔ کبھی کبھی انسان کی آنکھیں روتی ہیں اور کبھی کبھی انسان کا دل روتاہے۔ دل کا رونا آنکھوں کے رونے سے بھی افضل ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ انکھ سے پانی کا نکلنا ہی رونا کہلاتا ہے، بلکہ اللہ کے کئی بندے ایس بھی ہوتے ہیں کہ ان کےدل رو رہے ہوتے ہیں گویا ان کی آنکھوں سے پانی نہیں نکلتا مگر ان کا دل سے رونا اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو جاتاہے اور ان کی توبہ کے لئے قبولیت کے دروازے کھل جاتے ہیں تو دل اور آنکھوں میں سے کوئی نہ کوئی چیز ضرور روئے اور بعض کی تو دونوں چیزیں رورہی ہوتی ہیں۔آنکھیں بھی رو رہی ہوتی ہیں اور دل بھی رورہا ہوتاہے
تیسری علامت
مخلوق سے ملنے کی تو تمنا ہو لیکن اسے اللہ رب العزت سے ملنا یاد ہی نہ ہو تو سمجھ لے کہ یہاس کے دل کے لیے موت ہے ۔ لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے تعلقات ہوتے ہیں کہ ان کے دل میں ایک دوسرے سے ملنے کی تمنا ہوتی ہےاگر وہ نہ ملیں اداس ہوتے ہیں اور انہیں انتظار ہوتاہے مگر اللہ کی ملاقات یاد ہی نہیں ہوتی۔لوگوں کے ایک کال پر دوڑ پڑتے ہیں لیکن رب کی پانچ مرتبہ بلائے پر بھی نہیں جاتے تو سمجھ لیں دل بیمار ہوچکا ہے۔
چوتھی علامت
جب انسان کا نفس اللہ رب العزت کی یاد سے گھبرائے اور مخلوق کے ساتھ بیٹھنے سے خوش ہو تو وہ بھی دل کی موت کی پہچان ہے۔ اللہ کییاد سے گھبرانے کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان کا دل تسبیح پڑھنے سے گھبرائے۔ اس کے لیے مصلیٰ پربیٹھنا بوجھ محسوس ہوتا ہو۔ ایک موٹا سا اصول سمجھ لو کہ اگر بندے کا اللہ کے ساتھ تعلق دیکھنا ہو تو اس کا مصلے پر بیٹھنا دیکھ لو۔ حقیقی مومن بندہ مصلے پر اسی سکون کے ساتھ بیٹھتا ہے جس طرح بچہ ماں کی گود میں سکون کےساتھ بیٹھتا ہے اور جس کے دل میں کجی ہوتی ہے اس کے لیے مصلے پر بیٹھنا مصیبت ہوتی ہے وہ سلام پھیر کر مسجد سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ کئی تو ایسے ہوتے ہیں کہ مسجد میں آنے کے لیے ان کا دل آمادہ ہی نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں ان کا دل بیمار ہے۔
رب کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو صحت مند رکھے ۔آمین