بچوں کی نفسیات

ناظرین  ایک آدمی کی زندگی میں  سب سے بڑی اور پیاری چیز اولاد ہوتی ہے،وہ اپنی ساری بھاگ دوڑ ،محنت کاروبار  اپنی اولاد کے لئے کرتا ہے۔کچھ لوگ ہیں جو پیسا کمانے  میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کو اپنی  اولاد کی کوئی خبر نہیں ہوتی ہے،پیسا تو بہت کماتے ہیں اپنے بچوں کو آزادی بھی بہت دیتے  ہیں،وہ عمر کے آخری حصہ میں اپنی اولاد کو کھو دیتے ہیں،ان کی اولاد  کے جذبات مان باپ کے ساتھ نہیں  جڑ پاتے ہیں۔اسی طرح کچھ لوگ کمانے  کے لئے لمبی لمبی مدت باہر رہتے ہیں اور ان کے بچے یہاں ہوتے  ہیں تو ان کے جذبات بھی باپ کے  ساتھ نہیں جڑتے۔

جو ماں باپ اپنے بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں  ان کا بھی ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نفسات کو سمجھ نہیں پاتے ہیں۔چلئے دیکھتے ہیں  کہ بچوں کو کیسے پہچانیں ۔ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ صرف تجربہ کی بنیاد پرہے   ورنہ   مستقبل کے بارے میں سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا ہے۔

اگر ہمارے بچے عام طور پر باہر کے بچوں کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں، اپنے گھر کے اندر خواہ جس تعداد میں بچے ہوں ان کے ساتھ وہ مطمئن نہیں ہوتے، تو   اس طرح کے  بچوں کے اندر سوشل ہونے کی صفت ہوتی  ہے ، انسان کی فطرت انفرادیت کے ساتھ ساتھ اجتماعیت  پسند  بھی  ہے جہاں جاکر وہ اپنی صلاحیتوں کا موازنہ compare  کر سکتا ہے اور مسابقتی جذبہ competitive emotions   پیدا کرتاہے، ان بچوں کے درمیان غیر محسوس طریقےسے یا تو وہ اپنے آپ کو لیڈر بنا لیتا ہے یا پھر اچھا پیرو کار بننے میں معاون بناتی ہے ۔ بس والدین گارجین اور اساتذہ کا م یہ ہیکہ بچوں کو ان کا دوست چننے میں مدد کریں اور اچھی اور بری صحبت کا فرق بتائیں۔

اگر ااپ کے بچے بازار میلے اور سڑک پہ چلتے وقت  اپنے والدین کا باربار ہاتھ چھوڑ کر الگ ہوکر چلنا چاہتے ہیں۔تو  یہ بچوں کی بلند پروازی کی صفت ہے وہ چاہتے ہیں کہ والدین کی موجودگی میں وہ اپنے پائوں پہ کھڑا ہونا سیکھ لیں، انہیں ایسا کرنے دیں اور نگرانی قائم رکھیں۔اس طرح کے بچے بہت جلد باہر اپنا لوہا منوا لیتے ہیں ،اور اپنے ماں باپ کے  قدم قدم پر محتاج نہیں ہوتے ہیں۔

 گھروں میں بچے اپنے والدین کی چیزیں استعمال کرنا چاہتے ہیں عینک لگالیتے ہیں، کوٹ پہن لیتے ہیں، ٹوپی لگا لیتے ہیں،تو وہ اپنے باپ کی طرح بننا چاہتے ہیں ،ان کو اس میں خوشی ہوتی ہے ۔

 اسکول میں استاد کی کرسی پہ بیٹھ جاتے ہیں، چھڑی اٹھاکر بچوں کوپڑھانا شروع کردیتے ہیں، اس طرح کے بچے اگے چل کر استاذ  بن جاتے ہیں یا ان کو پڑھانا اور سکھانا بہت اچھا لگتا ہے ۔، وہ مستقل کو دور بین سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کل میں بھی اسی مقام پہ رہون گا ۔

عام طور پر اسکول میں جو ٹیچر   سب سے زیادہ محبت سے پڑھاتے بچے بھی وہی بننا چاہتے ہیں۔لوگ جن کی زیادہ عزت کرتے ہیں ،معاشرہ جن کو زیادہ چاہتا ہے بچے وہ بننے کی کوشش کرتے ہیں،اگر معاشرہ کرکٹ کے کھلاڑیوں کو  سب سے زیادہ پسند کرتا ہے تو بچے بھی وہی بننا چاہتے ہیں،ہمارے بچوں کی ذہن  پر ،نفسیات پر ،سوچ وفکر پر آس پاس کے ماحول کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔

اگر ہمارے بچوں کو ہمیشہ غصہ ،نفرت ،لڑائی جھگڑا،  مار  ،توڑ  کا ماحول ملے تو وہ آگے چل کر  اسی کے عادی بن جاتے ہیں ،ایسے ماحول میں پل کر بڑے ہونے   سے محبت ،نرمی ،سلیقہ ،سلیقہ مندی،ہمدردی  کی امید نہیں لگائی جا سکتی ۔

How useful was this post?

Click on a star to rate it!

Average rating 0 / 5. Vote count: 0

No votes so far! Be the first to rate this post.

Leave a Reply